کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 469
زیارت قبور قبر کے متعلق جاہلی اور اسلامی تصورات: ”قبور“گہری زمین کو کہتے ہیں۔ چونکہ دفن میت کے لیے گڑھا کھودا جاتا ہے، اس لیے اسے بھی قبر کہتے ہیں۔ قرآن عزیز میں قبر کا ذکر مختلف مقاصد کے لیے آیا ہے: ((ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ)) ((عبس:21) ”انسان کو اللہ تعالیٰ نے موت دی اور قبر بنانے کی تعلیم دی۔ “ یہاں تحدث بالنعمۃ مقصود ہے۔ انسان کی لاش ذلت سے بچ گئی۔ کہیں دوسرے واقعہ میں ضمناً ذکر آگیا: ((وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ)) (التوبہ: 84) ”منافق کی قبر پر بھی آپ مت جائیں۔ “ ((حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ)) (التکاثر:2) (( يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ)) (الحج:7) ((وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ)) (الانفطار:4) ان مقامات میں قبر کا ذکرتذ کرتاً حادثے کے طور پر آیا ہے، اس میں نہ اعزاز ہے نہ استخفاف۔ ابتدائے آفرینش میں سب سے پہلا ناحق قتل ہابیل کا ہوا[1]قاتل حيران تها کہ لاش كس طرح ٹھكانے لگائے ؟ ايك كوے كی راہنمائی سے علم ہوا کہ لاشیں اس طرح سنبھالی جاتی
[1] ۔ صحيح البخاري، رقم الحديث (3157) صحيح مسلم، رقم الحديث (1677)