کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 464
کے الزامات عائد کرتے تھے، اب دیوبندی مسلک کے لوگ اہلحدیث اور مولانا مودودی وغیرہ پر یہی تیر چلا رہے ہیں۔ بندہ رب ! رحیق والے مضمون میں توتوہین رسول کا شائبہ تک نہیں۔ جو خود بینی چیونٹی کو ہاتھی بنا کر دکھاتی ہو، وہ بھی اس مضمون میں توہین رسول کا کوئی حبہ نہیں دکھا سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح قبوری حضرات نے اہل قبور کے لیے رنگ برنگے عقائد گھڑ لیے ہیں، طرح طرح کی دور از کار اور بے اصل صفات اولیاء مرحومین کے لیے تصنیف فرما لی ہیں اور ان خود ساختہ عقائد و صفات کی تردید کو وہ توہین اولیاء قراردیتے ہیں، اسی طرح آپ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے باب میں کچھ طبع زاد تصورات کو حقائق مان لیا ہو اور ان سے بدلائل اختلاف کرنے والوں کو مرتکب توہین قرار دینے لگیں!! مولانا محمد اسماعیل کا درست تجزیہ: سچ لکھا ہے رحیق کے مضمون نگار جناب مولانا محمد اسماعیل صاحب نے ”بعض دیوبندی علماء بھی بریلوی علم کلام کے( 3/1)حصے سے موقع بہ موقع کام لیتے رہتے ہیں۔ “بلکہ ہم تو یہاں تک شہادت دیں گے کہ یہ علم کلام گاہے گاہے عملی جامہ بھی پہن لیتا ہے، مثلاً یہاں ایسے بھی ”علمائے کرام“موجودہیں، جو ”شاہ ولایت“صاحب کے مزار پر جاتے ہیں اور واپس آکر دوست احباب سے یہاں تک فرماتے ہیں کہ آج مجھے شاہ ولایت صاحب نے ڈانٹا کہ اتنے دنوں سے کہاں تھا، اور آج سینے سے لگا لیا، اور آج فلاں مشورہ دیا۔ یہاں ایسے بھی ”عاشقان اولیاء“علماء ہی کے دائرے میں موجود ہیں کہ اگر آپ ان سے کہیں گے کہ مولانا !یہ جو آپ نے درمیان کی دیوارڈھا کر دو کوٹھڑیوں کا ایک کمرہ بنادیا تو بہت ہی اچھا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ جی ہاں! حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی برکت ہے کہ جو کام بھی کرتا ہوں، ماشاء اللہ ان کی توجہ سے پسندیدہ و مرغوب ہوتا ہے۔ حالانکہ کسی اور وقت میں جب موڈ ذرا بدلا ہوا ہوتو آپ انھیں کی زبانی یہ بھی سنیں گے کہ مولانا