کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 463
پٹی باندھ دے اور اپنے بزرگوں کے ایک مسلک کی علمی تنقید آپ کو جامے سے باہر کردے۔ یہ کیسی بلید الذہنی ہے کہ ایک طرف تو جماعت اسلامی کی تائید کا ذکر نہایت تحقیر سے کرتے ہیں، دوسرے طرف بعض اکابر واسلاف کے ساتھ ”لائق صد احترام“کا دم چھلالگا کر ہمیں ان کی حمایت پر اس لیے ابھارتے ہیں کہ وہ ”ہمارے“ہیں۔ اس طرح کی لغویتیں قوم و وطن کے محور پر گھومنے والی سیاست میں تو چلتی ہیں، لیکن دینی و علمی مسائل میں اپنا اور پرایا، لائق صد احترام اور لائق صد اہانت کوئی چیز نہیں ہوتی۔ مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور دیوبندی بزرگ سے اگر ہمارے نسلی اور وطنی کچھ رشتے ہیں تو دینی و علمی مسائل میں ان رشتوں کی دہائی دینا پر لے درجے کی تنگ نظری ہے، اور مولانا مودودی سے ہمارا نسلی ووطنی کوئی بھی رشتہ اگر نہیں ہے تو اس عدم تعلق کو دینی و علمی مسائل میں ملحوظ رکھنے کا سبق دینے والا ہمارے نزدیک انتہائی پستی فکر و نظر کا شکار ہے۔ پھر اسی سانس میں آپ اہل حدیث پر بھی علی الاطلاق ایک بھونڈہ فقرہ کس جاتے ہیں۔ یہ کیا گراوٹ ہے؟ ہم بے شک حنفی ہیں اور یہاں تک غالی کہ اگر کسی فقہی مسلک کے بارے میں ہمیں تحقیق ہو جائے کہ وہ واقعی امام ابو حنیفہ کا ہے اور بعد کے کسی حنفی نے اس میں اپنے اجتہاد وقیاس کو داخل نہیں کیا ہے تو چاہے یہ ہمارے علم وعقل کے بظاہر خلاف ہی ہو، مگر ہم اس سے اختلاف کی ہمت نہیں کریں گے، کیونکہ ہمارے پاس وہ کافی علم نہیں ہے جو استنے بڑے عالم ودانا سے اختلاف کرنے کا حق عطا کرتا ہے۔ اہلحدیث پر توہین رسول کا الزام : ”توہین رسول“کی ایک ہی رہی، اہلحدیث اور توہین رسول؟ دن اور تاریکی ؟ آسمان اور پستی ؟ ہمیں پہلے ہی اندیشہ تھا کہ دیوبندی علمائے خلف کی اہل بدعت سے نیم برہنہ سانٹھ گانٹھ اور مفاہمت آخر کار دیوبندی مکتبہ فکر میں بھی مبتدعانہ غلو فی العقائد اور متو ہمانہ نکتہ سنجی کا زہر پھیلا کے رہے گی۔ وہی ہوا، اہل بدعت تو دیوبندیوں پر توہین رسول اور تحقیر اولیاء