کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 462
قبروں پر جانے کی مسنونیت نشر ہوئی اور ایک خاص حالت، خاص فضا اور خاص معاشرے سے متعلق حدیث کو ٹھیک اس واعظانہ بے قیدی وبے پناہی کے ساتھ استعمال کیا گیا، جس کے نقصان واضرار پر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن قیم اور مجدد الف ثانی جیسے حضرات سر پنیتے گئے ہیں، اور جس کی سطحیت پر سید اسماعیل شہید جیسے اعاظم رجال پناہ مانگ چکے ہیں۔ قبوری ذہن کو ہتھیار: ہندو پاک میں قبر پرستی اور پرستش اولیاء جس قدر زوروں پر ہے، آنکھ والوں سےمخفی نہیں۔ ایسے حالات اور ماحول میں جو اہل علم ”حیات النبی“کا مسئلہ لے کر بیٹھتے ہیں اور حیات پیغمبر کو بالکل حیات دنیاوی بنا کر اپنی فدائیت رسول اور حب پیغمبر اور تبحر علمی کا مظاہر فرمانا چاہتے ہیں، وہ صرف وقت کا ضیاع ہی نہیں کرتے، بلکہ اسے ایک نہایت افسوناک نتائج پیدا کرنے والے کام میں صرف کرتے ہیں اور قبوری ذہن کو توحید کے خلاف ہتھیار فراہم فرماتے ہیں، اسی لیے آج اس مسئلے کی حیثیت محض علمی نہیں رہی کہ اس میں ہر نقطہ نظر کو باعتبار اجتہاد حق و ثواب مان لیا جائے، بلکہ اس کی نوعیت ایک مستقل فتنے کی ہو گئی ہے، جس سے دامن بچانا ہر دانشمند کا فرض ہے، اسی وجہ سے”رحیق“ کے فاضل مضمون نگار نے زحمت تنقید فرمائی ہے اور اس وجہ کا مختصراً اظہار بھی آخر میں کردیا ہے۔ نفس مسئلہ سے ہٹ کر جہاں تک طرز تحریر اور معیار تنقید کا تعلق ہے تو اگر نفس مسئلہ پر ہم فاضل مضمون نگار سے متفق نہ ہوتے تب بھی برملا یہی کہتے کہ سنجیدہ و متین اور ٹھوس علمی اختلاف کا جو بہتر سے بہتر معیار ہو سکتا ہے، انھوں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔ لہجے سے لے کر الفاظ تک اور دلائل سے لے کر آداب تک انھوں نے پوری شائستگی، بربادی اور نجابت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ یا کوئی اور ان کے دلائل سے متفق نہ ہو یا دلائل کو سمجھے بوجھے بغیر صرف عقیدتاً اسی خیال پر جما رہے۔ جو اس کے محبوب بزرگوں کا ہے، لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا اہلحدیث ہونا آپ کی آنکھوں پر تعصب کی