کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 461
لیے اس حسن ظن کی بھی گنجائش باقی رہ جاتی تھی کہ جو کچھ انھوں نے تحریر فرمایا ہے، شاید اس کا مطلب وہ نہ ہو جو ہم نے سمجھا ہے اور وہ حیات النبی کے باب میں فی الحقیقت وہی مسلک رکھتے ہوں جسے ہم درست سمجھ رہے ہیں۔ کل کا دیوبند اور آج کا دیوبند: پھر وہ بھی زمانہ تھا، شرکت و بدعت کے خلاف خود مولانا قاسم اور دیگر ہم عصر علمائے دیوبند آئے دن سرگرمیوں کا مظاہرہ فرماتے رہتے تھے اور ”حیات النبی“کے متعلق ایک خاص مسلک رکھنے سے قبوری حضرات کو جوشہ ملنی ممکن تھی، ان کا سد باب اور ازالہ ان کی دیگر واضح ومصرح اور مؤکدو مدلل تحریروں اور تقریروں سے پوری طرح ہو رہا تھا، لیکن آج جو احوال ہیں، وہ بالکل مختلف ہیں۔ آج وہ زبانیں گنگ، وہ انگلیاں مفلوج اور وہ جذبات سرد ہو چکے ہیں جو مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی طرح اکرام مسلم کے ساتھ اہانت بدعتی اور تردید شرک و بدعت کو بھی منجملہ فرائض قرار دیتے تھے۔ وہ اخلاف حکمت ورواداری کی ”ملین پالیسی“ اختیار فرما چکے ہیں، جن کے اسلاف شرک و بدعت کے باب میں رواداری، تلین، درگزر اور صرف نظر کو بزدلی، بےحسی، بےعقلی اور دوغلاپن گمان فرماتے تھے۔ اسی لیے آج کہیں اور نہیں دیوبند میں، اس دیوبند میں جہاں طبلہ و ہار مونیم والی قوالی، صلوۃ علی القیر جمعراتی جشن قبوری، چادر بازی اور دیگرقبوری بدعات کا سایہ تک نہیں پایا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ موجود ہے، نہ صرف موجود بلکہ روز افزوں ترقی پر ہے۔ کیسے نہ ہو؟ہمارے واعظان شیریں بیان کا یہ حال ہے کہ جب وہ کسی ایسے مجمع میں وعظ فرماتے ہیں، جہاں اکثریت مبتدمین و مجہولین کی ہوتو ذومعنی اور آرٹسٹک گل افشانیوں کے وہ اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں کہ توحید پرست بھی واہ واہ کر اٹھیں اور مقبروں کی خاک چاٹنے والوں کا دل بھی گزبھر کا ہوجائے۔ دیوبندی کہیں کہ کوئل ”حقاتو“بولی، بدعتی کہیں کہ نہیں وہ تو ”عبدالقادر“بولی، حد ہوگئی، اسی عید الفطر کے وعظ میں دیوبند کی عیدگاہ کے لاؤڈسپیکر سے قبل نماز عید