کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 460
ہوئے تصور بشریت کو مافوق البشر تصورات و اوہام سے آلودہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ “(تجلی۔ مئی56ء، ص:33) مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ معصوم نہیں تھے! مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت و محبت کا جہاں تک سوال ہے، تو سچ یہ ہے کہ ہم انھیں اپنے وقت کا بہترین عالم، ذہین و فہیم مفکر اور صاحب زہد و ورع، دانشور سمجھتے تھے، لیکن یہ عقیدت اس لغویت تک کبھی نہیں پہنچی کہ ہم ان کو معصوم مان کر ان کی ہر فکر و رائے کی اندھا دھند تائید کرتے چلے جائیں، چنانچہ ان کی مختلف تحریروں میں اس طرح کی باتیں دیکھنے کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت ”موت“کے معلوم عام مفہوم و مصداق سے جداگانہ شے ہے اور اس کی مثال اس ہانڈی کی سی ہے جو کسی چراغ پر ڈھک دی جائے، ہم کسی طرح اپنے آپ کو اس باریک خیال کی تائید و تصدیق پر مائل نہ کر سکے۔ بلکہ ہمارا عقیدہ وہی رہا کہ قرآنی صریحات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت بھی من حیث البشر ویسی ہی رحلت ہے، جیسی کسی دوسرے انسان کی ہوتی ہے اور ”موت“ کا لفظ اس پر ٹھیک اسی طرح صادق آتا ہے، جس طرح کسی اور انسان کی رحلت پر، اس کے لیے قرآن، حدیث اور خلیفہ اول کی تقریر میں واضح شہادت موجود ہے۔ رہا بعد مرگ ان کا زندہ رہنا اور زمین پر ان کے جسم کی حرمت تو اگرچہ اس کا انکار ایک مسلمان کی حیثیت میں ممکن ہی نہیں ہے، لیکن جو لوگ اس زندگی بعد مرگ کو ٹھیک دنیاوی زندگی جیسا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور مرگ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک اٹل حقیقت ماننے سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئےاس طرح کی باتیں کرتے ہیں، گویا یہ ”موت“محض ایک فریب نظر یا مذاق تھا، وہ اچھا نہیں کرتے اور ان کا ذہن و قلب اس غلط ترین خیال سے مسموم ہے کہ ”موت“ایک اتنے عظیم پیغمبر کے لیے توہین و تحقیر کا باعث معلوم ہوتی ہے۔ خیر مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ کا انداز تحریر تو کچھ ایسا ادق اور غامض تھا کہ ہم کوتاہ فہموں کے