کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 46
دین حق کو قبول کریں۔ دین حق پورے سکون کے ساتھ زندگی کے تمام گوشوں پر قابض ہوجائے۔ شیطان کا لشکر پوری خاموشی سے اپنے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرے۔ ”یعنی تصوف اعتدال پر آئے، فقہی جمود ذرا ڈھیلا ہو اور((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي)) کے لیے صلح وآشتی سے راستہ صاف ہوجائے۔ دین کا اصل سرچشمہ بہرکیف اللہ کی کتاب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو رہنا چاہیے۔ ائمہ مجتہدین کے مکاتب فکر راہنمائی کے فرائض انجام دیں گے، خود راہ نہیں بنیں گے۔ “(ص:204۔ 205) شاہ صاحب کا توسع: مصنف نے مختلف فقہی جزئیات میں شاہ صاحب کا نقطۂ نظر ذکر کیا ہے، جو ان کے حکیمانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے، ان مثالوں کے بعد لکھتے ہیں: حجۃ اللہ“، ”مصفّی“ اور”مسوّی“میں اور بھی کئی فروعی مسائل ہیں، جن میں شاہ صاحب نے نہایت ہی وسعت نظر سے اپنا رجحان فقہائے حدیث اور شوافع کی طرف فرمایا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ خشک حنفیت اور جامد عصبیت کو شاہ صاحب قطعاً پسند نہیں فرماتے اور نہ قدمائے احناف میں اس قسم کا جمود پایا جاتا تھا۔ یہ جمود چوتھی صدی سے شروع ہوکر آٹھویں نویں صدی تک عروج پرپہنچا۔ بدعت سے روکنے کی اصل راہ اتباع سلف ہے۔ ائمہ کی تقلید نے بھی بدعت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عقیدت مندی کا جمود آگیا۔ اتباع سلف اور صحابہ کی مختلف رائیں اوران کے فتوؤں میں مصالح کی بنا پر تنوع ہے، اس لیے وہاں جمود نہیں آسکتا۔ “( ص:158)