کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 459
مسلک سے متفق نہیں، بلکہ ہمارا مسلک بعینہ وہی ہے جس کا اثبات ”رحیق“کے فاضل مضمون نگار مولانا محمد اسماعیل صاحب خطیب نے کیا ہے۔ تجلی میں کئی بار اس مسئلے پر ہم اجمالاً کچھ نہ کچھ لکھ چکے ہیں۔ تمام حوالے تو مستحضر نہیں ہیں، صرف ایک حوالہ پیش نظر ہے، یہی ہمارے خیال و عقیدے کے اظہار کے لیے کافی ہے۔
”تجلی“مئی 56ءمیں ”تجلی کی ڈاک“کے تحت”حیات النبی“ ہی کے زیر عنوان ہم نے ایک صفحے کا جواب دیا تھا، مناسب ہو آپ اسے پڑھ لیں۔ اس کی آخری سطور یہ تھیں:
”ہمارا کہنا یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے مجمل رکھنا ہی پسند فرمایا: ان کے بارے میں تفصیلات کی طلب اور چھان بین مناسب نہیں ہے، مجمل عقیدہ ہی کافی ہے۔ عقل وادراک کے پاس یہ صلاحیت کہاں ہے کہ وہ مرنے کے بعد کے احوال وواقعات کو مادی احوال وواقعات کی طرح سمجھ سکے۔ وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں کیا اور کیسا تعلق ہے؟ آپ کن معنوں میں زندہ ہیں؟ آپ کےسامنے کیا چیز یں پیش ہوتی ہیں؟ کیا نہیں؟ اس طرح کے سوالات میں پڑنے کے عوض احکامات دین کی تعمیل و نفاذ ہی مسلمانوں کے لیے بالکل کافی ہے۔ جن لوگوں پر عبادات و نکوکاری کے نتیجے میں اللہ کے بعض چھپے ہوئے اسرار کھول دیے گئے ہوں اور ”حیات النبی“کے باب میں ان پر کچھ مشکشف ہوا ہو، وہ ان کے اپنے لیے ہے، عوام کے لیے نہیں ہے، عوام اسے نہیں سمجھ سکتے، بلکہ مغالطوں اور وسوسوں میں گرفتار ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو”موت“سے جدا کوئی چیز ثابت کرتے ہوئے آپ کی حیات مستقلہ کا کوئی متعین و مشخص اور معلوم و مشرح تصور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں، ہمارے خیال میں وہ مفید کام نہیں کرتے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں قرآن کے بار بار بیان کیے