کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 454
حشر اجساد کے منکر تھے۔ حشر عظام پر استعجاب اسی حقیقت کی تعبیر ہے، مقصود یہی ہے: ((من يحيي الاجسام البالية))حدیث میں ((فاحتمل عظامه))سے مراد ((احتمل جسمه))ہی ہونا چاہیے اس مفہوم کے بعد احادیث میں تعارض اٹھ جاتا ہے۔ میری دانست میں وہی مسلک صحیح ہے جسے ائمہ سنت وحدیث نے قبول فرمایا ہے۔ 7۔ ابن خلدون کا حوالہ اور بھی محل نظر ہے۔ کیونکہ مصر سے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی نعش مبارک حضرت مویٰ علیہ السلام اپنے ہمراہ لائے۔ بنی اسرائیل چالیس سال تک بادیہ تیہ میں اقامت پذیر رہے۔ کوشش اور انتہائی آرزو کے باوجود بنی اسرائیل کسی ہمسایہ ملک پرحملہ کے لیے تیار نہ ہو ئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال اسی اثنا میں ہوا، اس کے بعد بنی اسرائیل کی قیادت یوشع بن نون کے سپرد ہوئی۔ حضرت یوشع نے اریحا اور نابلس کے علاقے فتح کیے۔ خیال ہے کہ اس اثنا میں برسوں گزر گئےہو نگے۔ ابن خلدون نے بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ((لما خرجوا من مصر أخرجوا معهم تابوت يوسف عليه السلام)) (1/123) ”تابوت“اور ”شلو“ابن خلدون نے دونوں استعمال کیے ہیں مسعودی نے ایک روایت میں تابوت کی شکل بھی بتائی ہے۔ ((وقبض الله يوسف بمصر وله مائة وعشرون سنة وجُعل في تابوت من الرخام وسدّ بالرصاص وطلي بالأطلية الدافعة للهواء والماء)) (1/47) ”حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے سفید پتھر کا تابوت بنایا گیا، اور ہوا اورپانی کی بندش کا پورا انتظام کیا گیا۔ “ معلوم نہیں اس وقفے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی عظام یا تابوت کو وادی ”تیہ“میں دفن کیا گیا اور نکال کر حسب وصیت نابلس میں دفن کیا گیا۔ تفصیلات کے متعلق تاریخ خاموش ہے اور جو مواد ملتا ہے وہ قربیاً اسرائیلی روایات ہیں، جن کی بنا پر ترجیح دینا مشکل ہے۔ جمہور امت نے جو رائے قبول کی ہے، روایات میں ضعف کے باوجود وہی راجح