کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 453
4۔ پهرثقاہت رجال کے علاوہ تصحیح حدیث کے لیے اور بھی شروط ہیں۔ مراسیل اور مقطوعات میں ثقاہت رجال کے باوجود حدیث کی صحت کا دعوی نہیں کیا جا سکتا۔ راوی اور روایت کی شرائط کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ 5۔ طبرانی کی روایت کے متعلق حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: ”رواة الطبراني في الأوسط وفيه من لمه أعرفهم“ غيرمعروف رجال سے جو روایت مروی ہے اس کی صحت کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس قسم کی ضعیف روایات کے بالمقابل تو ابن ماجہ کی روایت ((إن اللّٰه حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء))کو ضعف کے باوجود جمہور امت نے قبول فرمایا ہے، اس لیے اسے طبرانی اور ابو یعلی کی ضعیف روایت پر ترجیح ہوگی۔ ((لتلقي الامة مفهومها بالقبول)) قرائن کا تقاضا یہی ہے کہ ابن ماجہ کی روایت کوترجیح دی جائے اور برزخی زندگی کے ساتھ جسم کی سلامتی کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔ 6۔ پھر ابن ماجہ کی روایت کو علی علاتہا تسلیم کر لینے سے تعارض بھی اُٹھ سکتا ہے۔ ابو یعلی اور طبرانی کی روایت میں عظام سے مقصد حضرت یوسف علي نبينا وعليه السلام کی نعش مبارک مراد ہو، جیسے کہ البداية والنهاية (1/275)میں ((أخرجوا معهم تابوته)) مرقوم ہے۔ عظام کی تابوت اور تابوت کی عظام سے تعبیر میں کوئی استبعاد نہیں۔ ایسے مقام پر عظام سے جسم مراد لینا متعارف ہے۔ [1] قرآن حکیم نے منکرین حشر کا عقیدہ ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے ((مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ)) (بوسیدہ ہڈیوں کوکون زندگی عطا کرے گا) معلوم ہے کہ کفار
[1] ۔ جیسے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک بھاری ہو گیا تو حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے عرض کی ((ألا أتَّخذُ لَكَ مِنبرًا يا رسولَ اللَّهِ، يجمعُ أو يحملُ عظامَكَ ؟ قالَ : بلَى، )) (سنن ابی داؤد رقم الحدیث:1081)اس حدیث میں پورے جسم پر ”عظام“کا اطلاق کیا گیا ہے۔