کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 452
منشی صاحب کے دلائل کا تجزیہ: اس میں شک نہیں کہ دلائل میں ایسا باور کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اگر حیات جسمانی اور دنیوی تصور قبول کیا جا سکتا ہے تو منشی صاحب کے تصور کی راہ میں کون سا مسئلہ حائل ہو سکتا ہے؟لیکن میری رائے میں منشی صاحب کے دلائل کئی وجوہ سے کمزور اور مرجوح معلوم ہوتے ہیں۔ 1۔ حدیث: ((إن اللّٰه حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء)) ”اللہ تعالیٰ نے مٹی پر انبیاء کے اجسام حرام فرما دیے ہیں۔ “ گو بلحاظ سند صحیح نہیں، تاہم اصول ستہ کو جو فوقیت طبرانی اور ابو یعلی پر ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اصول ستہ کو بحیثیت مجموعی طبرانی وغیرہ پر برتری حاصل ہے۔ چوتھے درجے کی کتابوں سے استدلال فحول ائمہ حدیث تنقید اور تحقیق کے بعد کرتے ہیں یا پھر اہل بدعت جن کے ہاں اصل چیز اپنی بدعت کی تائید ہے۔ دلائل کی پختگی سے انھیں کوئی واسطہ نہیں(حجۃ اللّٰہ)[1] 2۔ حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد۔ میں صرف زوائد جمع کرنے کا ذمہ لیا ہے، تاکہ مواد اہل علم کے سامنے آجائے، وہ ان زیادات پر بالا ستیعاب کلام نہیں فرماتے اور نہ جرح و قدح کی تفصیلات ہی میں جاتے ہیں۔ 3۔ ابو یعلی کی روایت کے بارے میں انھوں نے فرمایا ہے۔ ”رجاله رجال الصحيح “اس سے تو اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سند کے رجال پر اصحاب الصحیح نے اعتماد فرمایا ہے، لیکن حدیث کی صحت کے لیے یہ کافی نہیں۔ امام مسلم نے شواہد میں ایسے رجال سے روایت کی ہے جن میں ائمہ حدیث کو کلام ہے۔ اس کا تذکرہ انھوں نے مقدمہ مسلم میں بھی فرمایا ہے۔
[1] ۔ دیکھیں:حجة اللّٰه البالغة (1/135)