کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 451
”حضرت یوشع نے اریحا کے بعد جب نابلس پر قبضہ کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں ان کی وصیت کے مطابق وہاں دفن کردیں۔ یہ ہڈیاں مصر سے نکلتے وقت وہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ “ ان حوالوں سے بطاہر معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ کلیہ درست نہیں، بعض انبیاء علیہم السلام اس سے مستثنیٰ معلوم ہوتے ہے۔ اہل علم کا فرض ہے کہ ان نصوص میں ٖور فرمائیں اور اس بظاہر تعارض میں ترجیح یا تطبیق کی کوشش فرمائیں۔ متوسلین دیوبند سے خصوصی گزارش ہے کہ وہ اپنے اکابر کےمسلک کو ان تصریحات کی روشنی میں ثابت فرمائیں۔ مسائل عصبیت یا ناراضی سے حل نہیں ہوتے اور نہ عقیدت مضرطہ دلائل اوربراہین کا بدل ہی ہو سکتی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ان متعارض دلائل کا اثر حیات برزخی پر نہیں پڑتا، وہ بہر حال ثابت ہے۔ عذاب و ثواب قبر کی احادیث کے ہوتے ہوئے قبر میں زندگی کی کوئی صورت تو یقیناً ہو گی۔ مشکلات حیات نوعی میں ہیں۔ خصوصاً جب اسے جسمانی دنیوی سمجھا جائے۔ بریلوی حضرات کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ قبر میں بظاہر بعض تکلیفات شرعیہ کا بھی صلحائے امت کو مکلف سمجھتے ہیں۔ ازدواجی تعلقات کی کہانیاں بھی ان کے ہاں عروج اور متعارف ہیں۔ [1] صاحب روح المعانی نے حیات شہدا کے سلسلے میں انواع حیات کے متعلق کافی تفصیل فرمائی ہے۔ [2]محترم منشی محمد شفیع صاحب کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کےلیے برزخی زندگی تو مانتے ہیں، لیکن وہ اس زندگی کے لیے نہ تو جسم کو ضروری سمجھتے ہیں نہ اس کے لیے دنیوی زندگی کے لوازم کی ضرورت ہی محسوس فرماتے ہیں۔
[1] ۔ دیکھیں:ملفوظات احمد رضا خاں بريلوي(3/36) [2] ۔ دیکھیں:تفسير روح المعاني (2/31)