کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 449
پسند اور بحث و نظر، تحقیق و تنقید کے عادی ہیں) نے توجہ دلائی کہ مسئلے کے بعض پہلو محل نظر ہیں، ان پر مزید غور ہونا چاہیے۔ میں نے اپنی گزارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاء علیہم السلام پر اجماع امت ہے، گو احادیث کی صحت محل نظر ہے، تاہم ان کا مفادیہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی۔ ((إن اللّٰه حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء)) (ابن ماجه، ص:77، 119، ترغيب منذري:2/11) منشی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کلیہ صحیح نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اجسام خاک پر حرام ہیں۔ بعض انبیاء علیہم السلام کے متعلق معلوم ہے کہ ان کے اجسام میں مٹی نے تصرف کیا۔ چنانچہ حافظ نورالدین ہیثمی (807ھ)نے مجمع الزوائد(10/170، 171) میں ابو یعلی اور طبرانی سے بروایت حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نقل فرمایا ہے: ((فقال عُلَماؤُهم: إنَّ يوسُفَ عليه السَّلامُ لَمَّا حضَرهُ الموتُ أخَذَ علينا مَوثقًا مِن اللهِ ألَّا نَخرُجَ مِن مِصْرَ حتَّى نَنقُلَ عِظامَه۔۔۔ الي ان قال:فلما احتقروا اخرجوا عظام يوسف عليه السلام))[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے: ((قال له:انك عند قبر يوسف عليه السلام فاحتمل عظامه معك، وقد استويٰ القبر بالارض۔۔۔ الي ان قال: فاخرج العظام وجاوز البحر)) [2] (مجمع الزوائد : 10/171) یعنی حضرت مو سیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ رات مصر سے نکلتے تو راستہ بھول گئے۔ جب تشویش ہوئی تو علمائے بنی اسرائیل نے فرمایا: یوسف علیہ السلام نے ہم سے پختہ وعدہ
[1] ۔ مسند ابي يعلي(13/189)المستدرك (2/624)صحيح ابن حبان (2/500) [2] ۔ المعجم الاوسط(7/374)