کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 448
سید نذیر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے توسط سے استفادہ فرمایا ہے، وہ اس قسم کی خوش اعتقادی سےمحفوظ رہے ہیں، اسی طرح جن لوگوں نے علمائے یمن سے علوم سنت کا استفادہ فرمایا ہے، وہ بھی ان کمزور اور دورازکار تاویلات سے محفوظ رہے ہیں، اور یہ ساری برکت اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں طریق تقلیدی جمود سے پاک ہیں۔ ان میں اساتذہ کا ادب تو یقیناً ہے، لیکن جمود اور تقلید نہیں۔ یہی محدثین کی اصل راہ ہے۔ جب سے محققانہ تنقید کو بے ادبی کہا جانے لگا، اس وقت سے جمود نے عقل و فکر کی راہوں کو مسدود کرنا شروع کردیا اور دماغوں نے سوچنا ترک کردیا۔
میری گزارشات:
میری گزارشات میں ان اساطین علم کے ارشادات پر حدود ادب کے اندر رہتے ہوئے تنقید تھی۔ اگر یہ مسئلہ صرف بریلی کی راہ سے آتا تو میں اس پر ایک حرف بھی لکھنے کی ضرورت نہ سمجھتا۔ میں نے عرض کیا ہے کہ وہ حضرات نہ سوچنے کے عادی ہیں نہ ان کا علمی حلقوں میں کوئی اثر ہے۔ حضرات اکابر دیوبند کے علمی احترام کے وسیع اثر نے مجبور کیا کہ ان کے ارشادات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تاکہ طلبا علمی تنقید اور بحث و نظر کی عادت سیکھیں۔
ان گزارشات کا مختلف حلقوں میں عجیب اثر ہوا۔ بعض حلقوں نے اسے بے حد پسند کیا، گویا وقت کی یہ ایک ضرورت تھی۔ اس وقت تک پاک و ہند کے کئی جرائد میں وہ مضمون شائع ہو رہا ہے۔ بعض حلقوں نے اسے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حضرات اکابر دیوبند کی بے ادبی پر محمول فرمایا۔ أعاذني اللّٰه من زلك
بعض نے اس پر جزوی اورمعقول تنقید فرمائی اور توجہ دلائی کہ معتدل بسط کے باوجود اس میں تشنگی ہے، بعض گوشے مجمل ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کی مزید وضاحت کی جائے۔ بعض کا خیال ہے کہ مسئلہ اساسی طور پر نظرثانی کا محتاج ہے۔ ضرورت ہے کہ نصوص کی روشنی میں پورے موضوع پر نظر ثانی کی جائے۔ جو خطوط بذریعہ ڈاک موصول ہوئے۔ ان میں بھی یہی کیفیت موجود تھی۔
منشی محمد شفیع صاحب کا نظریہ:
چنانچہ ہمارے محترم دوست منشی محمد شفیع صاحب لاہوری(جو مشرباً دیوبندی، طبعاً حق