کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 447
مولانا مغفور نے یہ کتاب وراثت نبوی کے متعلق شیعہ نقطہ نظر کے جواب میں لکھی ہے اور شیعی شبہات سے مخلصی کے لیے یہ مناظرانہ راہ اختیار فرمائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جسمانی طور پر زندہ ہیں اور ان کی یہ دنیوی زندگی ہے، اس لیے تقسیم وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مولانا کے ساتھ انتہائی عقیدت کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مناظرانہ راہ ہے، اس سے وہ نصوص حل نہیں ہوتے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات دفن اور اس دنیا سے انتقال کا صریح تذکرہ موجود ہے۔
قرآن کی صراحت ((إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ)) اور احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انتقال کی تفصیلات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ، صحابہ رضی اللہ عنہم کا سکوت، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کارجوع، امہات المومنین کا سوگ، ایسی چیزیں نہیں ہیں جنھیں مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی جلالت کی وجہ سے نظر انداز کردیا جائے۔
خود اکابر دیوبند ان کی اکثریت ان بزرگوں سے اس عقیدے میں متفق نہیں۔ اس کی حقیقت ایک صوفیانہ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں نصوص حدیثیہ کی ظاہری تعبیرات اس کے خلاف ہیں۔ تقلیدی جمود کی ذمے داری تو یقیناً نہیں لی جا سکتی، لیکن بصیرت دینی ان تاویلات کے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے، اس لیے ابنائے دیوبند سے ادباً گزارش ہے کہ اکابر دیوبند بے شک قابل احترام ہیں، لیکن وہ اپنے وقت کے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابو یوسف نہیں ہیں کہ ان کی ہر بات تقلید مان لی جائے۔ اس لیے گزارش ہے کہ جمود سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
کتاب و سنت موجود ہے اور ائمہ سلف کی تصریحات بھی ((ولا قول لأ مع اللّٰه ورسوله))
حیات النبی اور اہل حدیث:
مجھے خوشی ہے کہ اکابر اہلحدیث میں کسی سے اس قسم کی لغزش نہیں ہوئی۔ ہمارے اکابر سے غزنوی خاندان کو تصوف سے جو شغف رہا ہے، وہ بحث و دلیل کا محتاج نہیں، لیکن حضرت عبد اللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ابنائے کرام اور تلامذہ عظام سے کوئی بھی اس قسم کے اعتقادی جمود کا شکار نہیں ہوا۔ والحمدلله علي ذلك۔
حضرت شاہ اسحاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علوم سے جن لوگوں نے حضرت شیخ الکل مولانا