کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 446
كے بعد ان گزارشات كی تائید بعض ديوبندی جرائد نے بهی فرمائی[1]
جن احباب نے اختلاف فرمایا، وہ بھی دلائل اور تحقیق کی بنا پر نہیں، بلکہ اساتذہ کی جلالت قدر پر اعتماد اور جمود کی بنا پر فرمایا۔ اس کے باوجود انہی بزرگوں کے ذوق علم و تحقیق کی بنا پرپہلے بھی چند پریشان خیالات مقتدرمجلہ ”رحیق“کی نذر ہوئے اور آج کی صحبت میں جو عرض ہو رہا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے۔
ائمہ سنت اور اہل تحقیق اکابر کی روش کے پیش نظر ان مسائل پر غور فرمایا جائے۔ حضرت شاہ ولی رحمۃا للہ علیہ اور ان کے ابناء و احفاد کے ساتھ محبت اور ان کے تحقیقی مسائل سے استفادہ میں اہل حدیث کسی سے پیچھے نہیں۔
((مَا مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ وَيُرَدُّ عَلَيْهِ َ)) (امام مالک)کےکلیہ سے انبیاء علیہم السلام کے بعد کوئی مستثنیٰ نہیں، تاہم شاہ صاحب اور ان کے ابنائے کرام کی علمی تحقیقات کے سامنے پیشانیاں جھکتی ہیں۔ ((رحمهم اللّٰه وجعل الجنة مثواهم))
دیوبند کے علمی اقتدا اور حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کی رفعت مقام کی بنا پر جب کوئی مسئلہ ان حضرات کی طرف سے آئے تو اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ جو احادیث اس باب میں آئی ہیں ان کے متون و اسانید، ائمہ حدیث کے آراوافکار اور محققین کے ارشادات کی روشنی میں جو مواد میسر آسکا، اس کا تذکرہ ”رحیق“کے صفحات میں آچکا ہے۔
”آب حیات“
حال ہی میں برادر محترم حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کی عنایت سے حضرت مولانا نانوتوی رحمۃا للہ علیہ کی ”آب حیات“دیکھنے کا موقع ملا۔ مولانا نانوتوی کے علم اور جلالت قدر کا پہلے بھی یقین تھا، ؟ ”آب حیات“دیکھنے سے ان کا احترام اور بھی زیادہ ہوا۔ ان کی جلالت قدر کےباوجود بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ”آب حیات“ کا انداز تحقیق سے زیادہ تاویل پر مبنی ہے۔
[1] ۔ یعنی ماہنامہ ”تجلی“دیوبند، جس کا وہ مقالہ آئندہ صفحات میں شائع کیا جا رہا ہے۔