کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 445
چند شبہات کا حل
آج سے چند ماہ پہلے اس موضوع پر چند گزارشات ”مجلہ رحیق“ میں پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔ بریلوی حضرات کا موقف اس موضوع پر معلوم ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب نے فتاوی رضویہ کی پہلی جلد میں انبیاء علیہم السلام کی زندگی کو جسمانی اور دنیوی قراردیا ہے، [1]لیکن ان حضرات کے خیالات عموماً دلائل کے بجائے جذبات پر مبنی ہوتے ہیں، اس لیے علمی حلقوں میں اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
خود مولانا احمد رضا خاں صاحب جب اس قسم کے مسائل پر لکھتے ہیں تو استدلال کے بجائے مخالف پر طعن و تشنیع اور الزامات سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ وہ مثبت طریق پر بہت کم لکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم و نظر کے حلقوں میں ان بزرگوں کے ارشادات کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی۔ حضرات علمائے دیوبند کا مقام اس سے بالکل مختلف ہے، ان میں محقق اہل نظرہیں، دلائل پر ان کی نظر ہے۔ اپنے مسلک کی حمایت میں ان کا مدارجذبات پر نہیں ہوتا، لیکن مجھے تعجب ہوا کہ مسئلہ حیات انبیاء علیہم السلام میں حضرت مولانا حسین احمد، حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی اور بعض دوسرے اکابر دیوبند کی بھی تقریباً وہی رائے تھی جو مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تھی۔
پھر مزید تعجب ہوا کہ بعض حضرات نے حیات انبیاء کی اس صورت کو اجماعی مسئلہ قراردیا ہے، حالانکہ یہ دعویٰ تحقیق اور انصاف دونوں کے منافی ہے، بلکہ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اجلہ دیوبند بھی اس مسئلے میں ان حضرات سے متفق نہیں۔ میری گزارشات شائع ہونے
[1] ۔ فتاوي رضويه (1/610)