کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 444
زہد و ورع کے مطابق نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت قاری صاحب کا پورا خط خطابی انداز کا ہے، یہی حال مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم کے اقتباس کا ہے۔
اگر پاکستان میں اہل بدعت ان تمویہات اور الفاظ سے غلط فائدہ اٹھا کر اہل توحید کو دق نہ کرتے تو ان تلخ گزارشات کی ضرورت نہ تھی۔ ہم دور افتادہ مساکین پر آپ حضرات کسی اچھے طریق سے کرم فرمائیں تو ہم ممنون ہوں گے، جو انداز اب تک اختیار فرمایا گیا ہے، قابل شکایت ہے:
شَكَوْتُ وما الشَّكْوى لِمِثليَ عادةٌ
ولكِنْ تَفيضُ الكأسُ عِنْدَ امْتِلائِها [1]
ہم چاہتے ہیں کہ آپ حضرات سے توحید و سنت کی بات سنیں، ائمہ سلف اور ان کے اعتصام بالسنہ کے قصے سنیں۔ یہ جنس جو دارالعلوم لا رہا ہے، پاکستان مین ضرورت سے زیادہ موجود ہے، آپ حضرات کیوں تکلیف فرماتے ہیں؟ مولانا خیر محمد صاحب کی رضا مندی کے لیے کوئی اور راہ اختیار فرمائیے۔
دور دستاں راہ بہ نعمت یاد کردن ہمہ است
ورنہ ہر نخلے بپائے ثمر مے افگند است[2]
قاری صاحب کے مکتوب گرامی کے بہت حصوں پر میں نے گزارشات نہیں کیں، ورنہ اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
وَصَلَّى اللّٰهُ عَلى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِه وَصَحْبِه وَسَلَّمَ تَسْلِيْمًا كَثِيَراً
[1] ۔ میں نے شکوہ کیا ہے، حالانکہ شکوہ کرنا میری عادت نہیں، لیکن پیالہ بھرنے کے بعد پانی باہر گرنے لگتا ہے۔
[2] ۔ جن تک رسائی نہ ہو انھیں نعمت کے ساتھ یاد کرنا سب کی عادت ہے ورنہ ہر درخت اپنے نیچے چل گرائے ہوئے ہوتا ہے۔