کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 443
اس کے بعد مولانا نے سورج اور اس کی دھوپ کو تمثیلی انداز میں بہت طول دیا ہے، لیکن یہ کوشش بھی اس لیے ناتمام ہے کہ ((رَدَّ الله عَلَيَّ رُوحِي))میں لفظ”رد “کا تقاضا اس سے پورا نہیں ہوتا، البتہ طول سے ذہن میں خبط ضرور ہو جاتا ہے۔ اگر یہ تقریر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے وجوب کے متعلق کی جاتی اور متصوفانہ اور فقہی جمود پر اس سے پابندی لگائی جاتی تو بہت مناسب ہوتا۔ حدیث کے فہم کے لیے تو اس تقریر کے ہوتے ہوئے یہ لفظ حدیث سے نکالنا ہی پڑے گا۔ اس حدیث سے مخلصی کی ایک راہ بھی ہو سکتی تھی کہ اس کے رواۃ میں ابو صحر حمید بن زیادہ ہیں۔ مسلم نے اس کی متابعت کے طور پر روایت کی ہے۔ یحییٰ بن معین نے اسے بعض اوقات ضعیف کہا ہے، اس سے بعض منکرات بھی مروی ہیں، [1]حدیث پر جرح کرکے مخلصی ہو سکتی ہے۔ حدیث کو صحیح تسلیم کرنے کے بعد یہ اصطلاحات کی ہیرا پھیری بے دین اور اہل بدعت کے لیے راستہ کھول دے گی اور اس کی ذمے داری اہل علم پر ہو گی۔ یا پھر وہی عام اہل سنت کی راہ کہ حیات برزخی ہے اور یہ دنیوی موت کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے، ان دونوں میں تضاد نہیں۔ اہل تحقیق اور ہمارے اکابر کی بھی یہی راہ ہے۔ قاری صاحب نے استغراق کی بھی کئی صورتیں بنا دی ہیں: (( في ذاته صلّى اللّٰه عليه وسلّم)) ((الإستغراق في الأرواح الأمة)) ((الإستغراق في ذات اللّٰه تعاليٰ)) روح کا معاملہ جب ہمارے فہم و فراست سے بالا ہے تو پھر ان تکلفات سے کوئی فائدہ نہیں۔ ظاہر الفاظ سے فرار آپ جیسے حدیث کے ماننے والوں کے لیے قطعاً مناسب نہیں۔ یہ ابن عربی اور ابن سعید کے انداز کا کشفی تصوف امام احمد اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے
[1] ۔ دیکھیں:تهذيب التهذيب(3/36)