کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 442
أولئك آبائي فجئني بمثلهم
إذا جمعتنا يا جريرُ المجامعُ
اس کے بعد مولانا طیب صاحب کا ایک طویل خط ملا، جو اخلاق حسین صاحب نے نقل فرمایا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو کی جائے تو ایک غیر مفید بحث میں ناظرین کا وقت ضائع ہوگا حقیقت یہ ہے کہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد گرامی فصوص الحکم یا فتوحات کے انداز کی ایک مستقل تقریر یا نظریہ ہے، جس سے حدیث کے الفاظ کی روشنی میں حدیث کا حل نہیں ہوتا۔ پھر حضرت مولانا طیب صاحب کی تشریح حضرت نانوتوی کے ارشاد سے چنداں متعلق بھی نہیں۔ اپنی جگہ کچھ خیالات ہیں، جن کی پیدا ئش کا ذمے دار مولانا کا ذہن ہے، جو تلامذہ اور معتقدین کی محفل میں کہنے کے لیے اچھی چیز ہے، دلائل و براہین کے معیار پر اُترنا مشکل ہے۔ ایک مستقل سی تقریر ہے۔ اس سے نہ حدیث کے حل میں مدد ملتی ہے نہ مولانا نانوتوی کے ارشادات پر تشریحی روشنی پڑتی ہے، البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا نانوتوی کے ارشادات کو ابن قیم کے ارشاداور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے بعض کشوف سے ضم کرنے کی ناکام کو شش کی گئی ہے۔
میں نے اسے نا تمام کہنے کی جسارت کی ہے کہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح کوکل ارواح باقیہ اور خصوصاً مومنین کی اصل تصور فرماتے ہیں۔ لیکن حضرت قاری صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ”حقیقی مومن“فرما کر اس کے عموم کو ختم فرماتے ہیں اور اہل ایمان کی تخصیص کی ترجمانی اس انداز سے فرماتے ہیں، گویا روح اور ایمان بالکل مرادف ہیں۔ اصطلاح کا حق ہر ایک کو ہے، ہم اسے روک نہیں سکتے، لیکن ارباب علم غور فرمائیں کہ اس سے کس قدر خبط ہوگا اور پرویز اور خلیفہ عبدالحکیم کو اصطلاحات کی تخریب سے روکنا کتنا مشکل ہو گا؟ بہتر ہے لوگوں سے گفتگو ان کی زبان میں کی جائے، جس طرح ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔