کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 441
آپ نے اقتباس ملاحظہ فرما لیا۔ اُردو میں ہے، اس میں کوئی اغلاق بھی نہیں اور گہرائی بھی نہیں، لیکن میں مولانا طیب صاحب کی یہ غلو آمیزی پہلے دیکھ لیتا تو شاید میں بھی آنکھیں ملنے لگتا کہ شاید کوئی شیر سو رہا ہو۔ روات کی ثقاہت میں شبہہ نہیں، لیکن جب اسے واقع پر عرض کیا جائے تو ذہن میں کشمکش سی پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ اکابر کیا فرما رہے ہیں؟ ممکن ہے کوئی مقام کتاب دقیق ہو، جس کے لیے شیخ الہند نے استاد محترم کی طرف رجوع فرمایا، مگر پوری کتاب درساً پڑھنا عجیب بات ہے۔
ہماری رائے تو یہ ہے کہ بریلوی علم کلام کا (3/1)حصہ ہے، جو حضرات دیوبند کو ورثے میں ملا ہے اور اسی مبالغہ آمیزی کی بنا پر یہ غلط نظر یہ کہ ”انبیاء کی حیات دنیوی ہے“ دیوبندی مکتب خیال میں چل نکلا ہے۔ ہمارے دیوبندی نوجوان اساتذہ کے ارشادات کوچھوئی موئی سمجھتے ہیں اور ان کے حسن و قبح کا تجزیہ کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔
((فَبَشِّرْ عِبَادِ ﴿17﴾ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّـهُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ)) (الزمر: 17، 18)
احباب کرام! علم و دانش کی راہ ایک سراس سے مختلف ہے۔ اساتذہ کا احترام دوسری چیز ہے اور علم و دانش سے صرف نظر بالکل دوسرا امر، اس میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تلا مذہ کرام کا اسوہ آپ کے سامنے ہے کہ احترام اور اختلاف بیک وقت چل رہے ہیں، نہ اختلاف اظہار حق سے مانع ہے، نہ اظہار حق ادب و احترام کی راہ میں حائل اظہار حق کے جذبے کو ادب و احترام میں اس طرح سمودیا گیا ہے کہ سینکڑوں مسائل میں اختلاف کے باوجود استاد کی جبین احترام پر شکن کےآثار تک پیدا نہیں ہوتے ہیں اور تلا مذہ کے مزاج میں ادنیٰ سا تکدزرونما ہوتا ہے، نہ ہی طرفین میں مبالغہ آمیز تمادح کی کبھی نوبت آئی۔ رحمهم اللّٰه و رضي عنهم: