کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 440
بریلوی علم کلام :
ہم نے بریلوی علم کے تین اصول سمجھے ہیں:
اول: مخالف کو پیٹ بھر کے گالیاں دینا۔
دوم:جہاں تک ممکن ہو اس پر جھوٹی تہمتیں تراشتے جانا کہ بچارا الزامات کا جواب دیتے ہی تھک جائے۔
سوم:جس بدعت کی ترویج مقصود ہو اس کے ساتھ”شریف“کے لفظ کا اضافہ، گیارھویں شریف، میلاد شریف، چہلم شریف۔ جو بستی بدعت اور شرک کا مرکز ہو، اس کے ساتھ ”شریف“لگا دو۔ جتنا بڑا پاپی اور مہامشرک ہو، اس کے نام کے ساتھ جھوٹےخطابات کا ایک طویل سلسلہ ضم کردو، عوام حق سے نفرت کرنے لگیں گے بدعت اور اہل بدعت کو پسند کرنے لگیں گے۔
اِخوانِ دیوبند!
حضرات دیوبند پہلی دو بیماریوں سے قریباً محفوظ ہیں، گالیاں نہیں دیتے، جھوٹ نہیں بولتے، لیکن اکابر کے محاسن میں غلط مبالغہ اور بے ضرورت غلو، اساتذہ کی تقدیس انداز عظمت یہاں بھی موجود ہے، اور بدرجہ اتم !!
آپ نے مولاناقاسم رحمۃ اللہ علیہ کا اقتباس پڑھ لیا۔ اب مبالغہ آمیزی ملاحظہ فرمائیے:
”آب حیات وہ کتاب ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے یہ کتاب استاد رحمۃ اللہ علیہ سے درساً درساً پڑھی، تب مصنف کے مدارک پر مطلع ہوا ہوں۔ میں نے مولانا حبیب الرحمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس واقعہ کا حوالہ دے کر غرض کیا تھا: مجھے یہ کتاب آپ پڑھا دیں تو انھوں نے بایں ذہن و ذکا فرمایا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں۔ تو ایسی کتاب ہم جیسے نالائقو ں کے بس کی بات کیا ہو سکتی ہے۔ “