کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 44
نہ حافظ ابن حزم کی ظاہریت ہو جس سے نصوص میں بھدا پن پیدا ہو اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی فصاحت وبلاغت اور حسنِ ادا نظر انداز ہوجائے، اور نہ قیاس اور رائے کو اس قدر اہمیت حاصل ہو کہ قوت فیصلہ علماء کی موشگافیوں اور حیل آفرینیوں کے ہاتھ میں چلی جائے، اور نصوصِ شرعیہ اس حیران کن منظر میں صرف تماشائی ہوکررہ جائیں، جیسے متاخرین فقہا نے فرضی صورتوں سے دین کا نیا محل تعمیر فرمادیا۔ قاضی خان، شامی، الاشباہ والنظائر ان کے سامنے ان علوم اور ان کی ہمہ گیر تعلیمات انگشت بدنداں ہوکررہ گئیں۔ “(ص:166) شاہ صاحب کیا چاہتے ہیں؟ ”شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ چاہتے ہیں کہ مروجہ فقہ کو حدیث اور آثار سلف کی تائید حاصل ہو اور ظاہریت خالصہ کو تفقہ اورقیاس جلی سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ہندوستان میں تحریک اہلحدیث کا مقصد صرف اسی قدرہے، جسے مستقل طور پر گھبراہٹ کا پیغام سمجھ لیا گیا ہے۔ “( ص:180) اس کے بعد مصنف نے بریلوی فرقے سے متعلق تبصرہ کیا ہے اور اہلحدیث کے ساتھ ان کے رویے پر افسوس وتعجب ظاہر کیا ہے اور لکھا ہے کہ” یہ حضرات توحید و سنت کی ٹھوس آواز سے ڈریں تو بجا ہے۔ “ اس کے آگے دیوبندی فرقے پر تعجب کا اظہار ہے کہ یہ بھی”وہابی“ کے لفظ سے اس قدر گھبرائے کہ میدان چھوڑ گئے۔ مصنف نے قافلۂ مجاہدین سے اربابِ دیوبند کی علیحدگی کے موضوع کو چار صفحات میں موثر اسلوب اور دردمندانہ لہجے میں بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”یہ تو سیاسی صورتحال تھی، لیکن دینی پہلو سے یہ حضرات شاہ صاحب کے پروگرام سے کافی الگ ہوگئے۔ جس جمود کو شاہ صاحب ختم کرنا چاہتے