کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 439
کہ ان حضرات نے ایک غلط نظریہ اپنا لیا کہ انبیاء کی حیات برزخی نہیں جسمانی اور دنیوی ہے۔
حضرت رحمہ اللہ نے مجازات کی زبان میں روح کو جسے قرآن نے امر فرمایا، مرکب تصور کیا، پھر شعب لا متناہی تصور فرمایا، پھر اس مرکب کے اجزاء سے ہر ایک کی توجہ مختلف سمتوں میں منقسم ہوسکتی ہے، پھر انقسامِ توجہ کے باوجود استغراق پرمطلق اثر نہیں پڑتا، پھر یہ روح عالم ارواح کے لیے اورمومنین کی ارواح کے لیے منبع ہے، یعنی مسلم اور غیر مسلم ارواح کا انشعاب اسی روح سے ہوتا ہے اور مومنین کی ارواح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پُر فتوح سے خاص نسبت اور تعلق ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم رحمہ اللہ کے ارشادِ گرامی کا اقتباس آپ کے سامنے ہے، بظاہر اس میں کوئی اغلاق نہیں۔ مجاز واستعارات کے انداز میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ الفاظ کے ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں، کتاب وسنت سے کوئی نص یا اشارہ حضرت نے اپنے اس فکر کی تائید میں ذکر نہیں فرمایا۔
قرآن عزیز نے روح کے تذکرے میں جامع اور مناسب راہنمائی فرمائی ہے:
((قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا)) (بنی اسرائیل:85)
”ذرا غور کرلیا ہوتا کہ امر کی تفصیلات میں جانا، اس کے غیر متناہی شعب کا تذکرہ ہوتاتو قرآن اسے ضرور بیان فرمادیتا۔
مولوی:اخلاق حسین صاحب نے صفحہ(17) میں زادالمعاد سے ایک اقتباس نقل فرمایا ہے۔ اس کا اور مولانا کے اقتباس کا موازنہ فرمائیے، حافظ رحمہ اللہ کا ارشاد کس قدر اقرب الی السنۃ ہے اور احادیث میں تطبیق کے لیے کس قدر موزوں اورمناسب۔ ادھر مولانا قاسم کی منطق ملاحظہ فرمائیے، وہ قطعی بے جان ہے۔ الفاظ کی شعبدہ بازی سے زیادہ اس میں کچھ نہیں۔ اور حدیث کے سامنے رکھاجائے تو پوری تقریر کی حیثیت ہوا سی ہوجاتی ہے اور حدیث((ردّ الله عليّ روحي)) کے الفاظ سے بالکل الگ اور مختلف!