کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 438
مکتبِ خیال کے بزرگوں کی رفعتِ شان کا واسطہ دے کر گرتی دیوار کو تھوڑی دیر کے لیے سنبھالا دے دیں۔ مولانا اخلاق حسین اور ابوذر صاحب نے بھی یہی کچھ کیا ہے، اس لیے مجھے اس رسالے کے ابتدائی حصے کے متعلق کچھ بھی گزارش کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔
میں نے اسے بعض دوستوں سے سناتھا کہ حضرت مولانا قاسم رحمہ اللہ نے اسی موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے، مجھے یہ رسالہ کوشش کے باوجود نہ مل سکا، مگرپیش نظر رسالے کے صفحہ(18) پر حضرت مولانا قاسم رحمہ اللہ کے رسالے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمالیں۔ مولانا کے رسالے کا نام”آبِ حیات“ ہے۔ یہ اقتباس صفحہ(232) سے لیا گیا ہے۔ مولانا نے اسی حدیث:
((ردّ الله عليّ روحي)) کی توجیہ فرمانے کی کوشش فرمائی۔ یہ حدیث چونکہ دیوبندی مکتبِ خیال کے خلاف ہے، اس لیے اس کی تاویل فرمائی گئی ہے کہ یہ راستے سے ہٹ جائے۔
حضرت کا ارشاد:
”روح پر فتویٰ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جب منبع اور اصل ارواح باقیہ خصوصاً ارواح مومنین امت ٹھہری تو جونسا امتی آپ پر سلام عرض کرے گا، اس کی طرف کا شعبہ لوٹے گا، ارتداد جملہ شعب لازمی نہیں اور ظاہر ہے کہ اس شعبہ کا ارتداد باعث اطلاع سلام تو ہوگا، پر موجب زوال استغراق مطلق نہ ہوگا، آخر شعب غیر متناہی اور ہیں۔ “
حضرت مولانا کی جلالتِ قدر، وسعتِ نظر، وسعت معلومات، تقویٰ، للّٰہیت معلوم اور مسلم ہے قلم لرزتاہے کہ مجھ جیسا کم سواد علم وحکمت کے سمندر کے خلاف تنقید کا انداز اختیار کرے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بحمداللہ ذہن میں تقلید وجمودکے جراثیم نہیں ہیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، فداہ ابی وامی، کے بعد یقین سے کوئی معصوم نہیں، اس لیے سوچتا ہوں کہ اس مختصر سے اقتباس میں ہے کیا؟اتنے بڑے متبحر فاضل نے افسوس ہے کوئی دلیل نہیں دی اور ایسی کوئی چیز بھی نہیں لکھ سکے جو ذہن کو اپیل کرسکے، اور یہ مصیبت اس لیے پیش آئی