کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 436
حدیث 8، 9، 10 بالکل حیات دنیوی کا پتا نہیں دیتیں۔ معلوم نہیں مولانا زاہد صاحب نے انھیں کیوں نقل فرمادیا؟سابقہ گزارشات کے بعدان احادیث پر مزید گفتگو سے کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا۔
حکایات وقصص:
1۔ حضرت جعفر کی شہادت، بعض ارواح کا اپنے قرضوں کے متعلق اطلاع دینا، کتاب الروح، شرح الصدور خصائصِ کبریٰ وغیرہ میں اس قسم کے کئی حکایات مرقوم ہیں۔
اولاً: یہ قصے شرعاً حجت نہیں۔
ثانیاً: عقائد کے لیے یہ دلائل قطعاً قابل اطمینان نہیں۔
ثالثاً: اس سے حیات روح اوران کی نقل وحرکت پراستدلال کیا جاسکتاہے، حیاتِ جسمانی یا حیاتِ دنیوی ان سے ثابت نہیں ہوتی۔
رابعاً: خواب اور کشف کا ظہور جب غیر نبی سے ہوتو صاحبِ کشف ممکن ہے اس پریقین کر لے، عامۃ المسلمین اس کے پابند نہیں۔
2۔ واقعہ حرہ میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا مسجدِنبوی میں اذان سننا، [1] مدعا کے لحاظ سے بالکل بے معنی ہے۔ سعید بن مسیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں پہچانتے تھے۔ ممکن ہے یہ آواز کسی پاکباز جن یا فرشتے کی ہو، اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی کیسے ثابت ہوئی؟
3۔ ابن القاسم رحمہ اللہ سے مولانا نے انسان کے چار دورذکر فرمائے ہیں:
1۔ رحم 2۔ دنیا۔ 3۔ برزخ۔ 4۔ آخرت
ہردوسرا پہلے سے بہتر۔ اس وسعت پر غور فرمائیے! یہ دلیل آپ کے خلاف ہے یا آپ کے موافق؟جب برزخ میں وسعت ہے اور یہ دور دنیا سے بہتر ہے تو فرمائیے!آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برزخ سے دنیوی زندگی میں لانے کی کیوں کوشش فرماتے ہیں؟
[1] ۔ دیکھیں:الحاوی للفتاویٰ(2/140) اس کی سند بھی ضعیف ہے۔