کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 435
یہ دونوں صورتیں برزخ میں ہی ہوسکتی ہیں، اسے دنیوی زندگی کہنا دانشمندی نہیں۔
اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تصریح فرماتے ہیں:
((لأنه بعد موته وإن كان حيا فهي حياة أخروية، لا تشبه الحياة الدنيا))[1] (4/36 پ:16)
اور(3/282 پ:4) میں فرمایا:
((وھذہ الحیاۃ لیست دنیویۃ، انما ھی اخرویۃ))[2] انتھی‘
”تلخیص الجیر“(ص:162) میں بیہقی سے نقل فرمایا:
((الأنبياء أحياء عند ربهم كالشهداء))[3]
یہ عنداللہ حیات برزخی اخروی ہوسکتی ہے، اسے کبھی کوئی سمجھدار دنیوی حیات تو نہیں کہہ سکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی نماز، حج، ہارون علیہ السلام ویونس علیہ السلام، حضرت مسیح علیہ السلام اور دجال کا احرام، یہ سب حقائق مثالی ہیں یا برزخی، دنیوی تو نہیں ہوسکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم فوت ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لـه لَظِئرَينِ تُكَمِّلانِ رَضاعَهُ في الجنة)) [4] (مشکوۃ، ص:520)
”اس کی عدتِ رضاع جنت میں عورتیں پوری کریں گی۔ “
آپ کے خیال سے حضرت ابرہیم کو دنیوی زندگی ملی، حالانکہ نہ وہ نبی ہیں نہ شہید!! اس مطلب کی بیسیوں احادیث کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ اگران سے دنیوی حیات ثابت کی جائے تو پھر یوں فرمائیے کہ دنیا میں کوئی مرتا ہی نہیں!!
[1] ۔ فتح الباری(7/349)
[2] ۔ فتح الباری(7/4)
[3] ۔ دیکھیں:حیاۃ الانبیاء للبیھقی(ص:51)
[4] ۔ صحیح مسلم(2/254)