کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 434
رہا مولانا حسین احمد صاحب مرحوم کا ارشاد گرامی سو وہ نص حدیث کے مخالف ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک سلام کا جواب دینے کے لیے رو کی جاتی ہے۔ مولانا کے ارشاد کے مطابق روکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس حدیث کے مفہوم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مولانا مدنی رحمہ اللہ کے جواب سے تو حدیث کا مفہوم صاف نہیں ہوتا۔ ساتویں حدیث: حدیث نمبر(7) میں اسراء کی رات کو انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کا ذکر ہے۔ معلوم نہیں اس سے حیاتِ دنیوی کا استخراج کیسے ہوگا؟ائمہ سنت کے اس کے متعلق دو ہی مشہور مسلک ہیں، بعض اس ملاقات کو روحانی سمجھتے ہیں۔ فتح الباری (ص:452، پ10) میں ایک حدیث بزار اورحاکم سے منقول ہے: ((أَنَّهُ صَلَّى بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ مَعَ الْمَلَائِكَةِ وَأَنَّهُ أُتِيَ هُنَاكَ بِأَرْوَاحِ الْأَنْبِيَاءِ فَأَثْنَوْا عَلَى اللَّهِ))[1] ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں ملائکہ کو نماز پڑھائی اوروہاں انبیاء علیہم السلام کی روحیں لائی گئیں۔ “ دنیوی زندگی کا یہ غلط دعویٰ مصیبت ہوگیا ہے اور احادیث میں تطبیق ناممکن۔ دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ میں ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں یا شب اسراء میں ملاقات فرمائی۔ ان کا ذکر بھی حافظ ابن حجر فتح الباری (3 409، پ:15 ) میں فرماتے ہیں: (أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ مُشَكَّلَةٌ بِشَكْلِ أَجْسَادِهِمْ كَمَا جَزَمَ بِهِ أَبُو الْوَفَاءِ بْنُ عَقِيلٍ)) [2]
[1] ۔ فتح الباری (7/200) [2] ۔ فتح الباری (7/210)