کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 433
عقیدۂ حیات اور اس کے نتائج: لیکن اب مشکل یہ ہے کہ بریلوی مکتبِ فکر اور بعض اکابر دیوبند نے ان ضعاف اور مقطوعات سے عقیدہ حیاتِ دنیوی ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے اور اس بدعی تصور کو متواتر عقیدے کا نام دینا شرو ع کیاہے، اس لیے پورے یقین سے سمجھ لینا چاہیے کہ تعددِ طرق اور شواہد کے باوجود یہ اسانید اس قابل قطعاً نہیں کہ ان پر کسی عقیدے کی بنیاد رکھی جائے۔ پھر ان طرق اور شواہد میں حیات انبیاء کا ذکر نہیں، بلکہ((أَكْثِرُوا عَلَيَّ الصَّلاَةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ)) پر زور دیا گیا ہے۔ جن طرق اور شواہد میں حیات کا ذکر صراحتاً آیا ہے، وہ کوئی بھی صحیح نہیں۔ صحیح لغیرہ احادیث سے عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا، امت میں کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا۔ جن اہل ِ علم سے ان احادیث کی توثیق نقل کی جارہی ہے، ان میں نہ کوئی دنیوی زندگی کا قائل ہے نہ ہی ا ن مباحث میں کسی نے اس بدعی عقیدے کو ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ سب سے زیادہ بحث اس مقام پر حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمائی ہے، وہ حیات دنیوی کے قائل نہیں۔ ان احادیث سے مطلق حیات کو بھی انھوں نے ثابت کرنا پسند نہیں کیا۔ اس لیے ان مباحث سے اس مخترعہ عقیدے پر استدلال((تاويل القول بمالا يرضيٰ به القائل)) ہوگا، جسے اہل علم ودانش نے کبھی پسند نہیں فرمایا۔ چھٹی حدیث: حدیث نمبر(6) صحیح ہے۔ [1]اس میں سلام کے وقت ردِ روح کا ذکر ہے۔ یہ حیات دنیوی کے خلاف ہے۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے جس قدر جوابات دیے ہیں، ان جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حافظ سیوطی رحمہ اللہ کا اپنا ذہن بھی اس حدیث کے متعلق صاف نہیں۔ جواب میں تذبذب اور خبط نمایاں ہے۔ [2]
[1] ۔ یعنی حدیث((ما من احد يسلم علي الا رد الله علي روحي حتي ارد عليه السلم)) (سنن ابي داؤد، رقم الحديث :2041) [2] ۔ ديكهيں:الطحاوي للفتاويٰ للسيوطي(2/142)