کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 432
ادراج کو بطور شبہہ قبول فرمایا ہے۔ (1/509) خاں صاحب بریلوی نے بھی اس زیادتی کو مدرج تسلیم کیا ہے۔ (حاشیہ حیات الاموات، ص:178) خود ابن ماجہ میں یہ حدیث اوس بن اوس اور شداد بن اوس سے مروی ہے، اس میں یہ زیادتی نہیں۔ [1] اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس کی سند کو”جید“ کہنا تسامح سے خالی نہیں۔ برتقدیر تسلیم یہ احادیث صحیح بھی ہوں تو ان سے دنیوی زندگی ثابت نہیں ہوتی، لیکن میں نے کسی قدر تفصیلی تذکرہ اس لیے ضروری سمجھا، تاکہ ان احادیث کی حقیقت معلوم ہوجائے، جنھیں حضرات اجلہ دیوبند دبی زبان سے متواتر فرمادیتے ہیں اور”مدارج النبوة“اور حافظ سیوطی رحمہ اللہ کی مصنفات پر اس قدر اعتماد کیا جاتا ہے، جو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے متوسلین سے انتہائی موجبِ استنجاب ہے۔ ان احادیث میں ضعف اور انقطاع موجود ہے، لیکن مسئلہ چونکہ درود کے فضائل کا ہے، اس میں حلال وحرام یا عقائد کی بحث نہیں، اس لیے ابن قیم رحمہ اللہ جیسے ائمہ حدیث تک نے تسامح سے کام لیا ہے، بنابریں تعددِ طرق سے اس کی تصحیح کی گئی اور عوام میں مشہور ہے کہ فضائل میں اس قسم کی احادیث کوقبول کرلیتے ہیں، اہلِ تحقیق کے نزدیک یہ اصل بھی خود محلِ نظر ہے۔ [2] جلاء الافہام میں، جیسا کہ اوپرذکر ہوا ہے، حدیث ابوالدرداء رضی اللہ عنہ پر طویل بحث فرمائی ہے۔ انقطاع اور تضعیف کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ انقطاع کے لیے شواہد جمع فرمائے ہیں، گو وہ شواہد خود محل نظر ہیں۔ خود حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ان شواہد کے متعلق بھی علل کا تذکرہ فرمایا ہے، لیکن یہ تمام شواہد کثرتِ صلوٰۃ کے متعلق جمع فرمائے گئے ہیں اور یوم الجمعہ کی تخصیص کو زیادہ تر پیش نظر رکھا گیا ہے، اس حد تک کوئی حرج نہیں۔ جمعہ کے دن کثرتِ صلوٰۃ کے متعلق ان شواہد سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
[1] ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1085، 1636) [2] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:صحیح الجامع الصغیر للعلامۃ الالبانی رحمہ اللہ (1/49)