کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 430
اسی طرح انہوں نے”الترغیب والترھیب“(1/129۔ مصری) میں فرمایا ہے۔ اس”علۃ دقیقۃ“ کی وضاحت علامہ تقی، سبکی اور حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے کردی ہے۔ سبکی لکھتے ہیں: ((وعلته ان حسين بن علي الجعفي لم يسمع من عبدالرحمان ابن يزيد بن جابر، وانما سمع من عبدالرحمان بن يزيد بن تميم وهو ضعيف، فلما حدث به الجعفي، غلط في اسم الجد، فقال:ابن جابر)) (شفاء السقام، ص:47) اسی کے قریب قریب حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھ کر فرماتے ہیں: ((ولهذا قال ابو حاتم:ان الحديث منكر)) (القول البديع، ص:119) امام بخاری رحمہ اللہ کا دہ اشارہ”التاریخ الکبیر“اور”التاریخ الصغیر“ میں ہے۔ اول الذکر میں بہ ذیل ترجمہ عبدالرحمان بن یزید بن تمیم لکھتے ہیں: ((يقال:هو الذي روي عنه اهل الكوفة ابواسامة وحسين، فقالوا: عبدالرحمان بن يزيد بن جابر)) (التاريخ الكبير :3/365قسم اول) اور التاریخ الصغیر(ص:179) میں فرماتے ہیں: ((وَأما أهل الْكُوفَة فرووا عَن عبد الرَّحْمَن بن يزِيد بن جَابر وَهُوَ بن يزِيد بن تَمِيم لَيْسَ بن جَابر وَابْن تَمِيم مُنكر الحَدِيث)) حافظ ابوحاتم کا ارشاد ان کے صاحبزادے حافظ عبدالرحمان نے نقل کیا ہے: ((سمعت أبي يقول : عبد الرحمن بن يزيد بن جابر لا أعلم أحدا من أهل العراق يحدث عنه، والذى عندي أن الذى يروي عنه أبو أسامة وحسين الجعفي واحد، هو:عبدالرحمان بن يزيد بن تميم)) پھر اس علت کو بنیاد بناکر زیر بحث روایت نقل کی اور لکھاہے: ((وھوحدیث منکر لاأعلم أحداً رواہ غیر حسین الجعفی)) (علل الحدیث لابن ابی حاتم:1/197)