کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 43
مشاغل کی وجہ سے ان کی معلومات زیادہ ہیں، عوام ان کی معلومات سے استفادہ کرسکیں۔ صحیح حدیث کا علم جب صحیح ذرائع سے پہنچ جائے تو علماء کے ساتھ تقلیدی وابستگی کا تعلق یکسر ختم ہوجائےگا۔ حدیث صحیح کے ہوتے ہوئے کسی عالم کے لیے تعصب یا اس کی حمایت کے لیے تاویل کے دروازوں کا کھول دینا شاہ صاحب کی نگاہ میں بہت بڑی گمراہی ہے۔ اس انداز کو وہ کسی طرح بھی پسند نہیں فرماتے۔ “(ص:160۔ 161)
مصنف نے مختلف مباحث کے دوران میں شاہ صاحب کے نقطۂ نظر کو واضح کیا ہے اور اس میں اعتدال وامانت کا لحاظ رکھا ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
” شاہ صاحب ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام علماء کی اطاعت واتباع کریں، لیکن اس میں پیغمبر کی طرح کسی کا تعین نہ ہو اور نہ اس میں جمود کی روح سرایت کرنے پائے۔ “(ص:164)
مصنف نے”تفھیمات “(2/202) کے حوالے سے شاہ صاحب کی عبارت کا ترجمہ نقل کیا ہے، جس سے شاہ صاحب کے نقطۂ نظر کی وضاحت ہوتی ہے:
”ہم فروعی مسائل میں اُن مسائل پر عمل کی کوشش کرتے ہیں، جن پر علماء متفق ہوں، خصوصاً دو بڑے گروہ: حنفی اور شافعی۔ طہارت اور نماز کے مسائل میں یہ طریقہ اور بھی پسندیدہ ہے۔ اگراس میں اتفاق نہ ہوسکے تو جو ظواہر حدیث کے موافق ہو، ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ “
مذکورہ بالا اقتباس کے بعد مصنف نے اپنا تاثر ظاہر کرتے ہوئے شاہ صاحب کے مقصود کو پھر واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
“ان کا منشا یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ فقہائے محدثین کی راہ کو بھی ان کے ساتھ ملا کر ملک میں ایک ایسے فقہی مکتب فکر کی بنیاد رکھی جائے جس میں