کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 429
حدیث نمبر 5:
((اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ))
رواہ اصحاب السنن وابن حبان، اور حاکم نے اسے صحیح کہا۔ [1]
”تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوۃ“میں بعض ائمہ سے اس حدیث کی تصحیح نقل کرکے بعد لکھا ہے:
((وللحديث طرق، جمعها المنذري في جزء، فتعدد الطرق )) [2] (تنقیح الرواۃ:1/255)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی جلاء الافہام میں ابن حاتم کی جرح کے جواب میں کوشش فرمائی ہے، جس کی بنیاد عبدالرحمان بن یزید بن جابر اور عبدالرحمان بن یزید بن تمیم کے اشتباہ پر رکھی ہے۔ [3] حقیقت یہ ہے کہ جلاء الافہام کی ساری بحث پڑھنے کے بعد بھی ذہن صاف نہیں ہوتا۔ اجلہ محدثین رحمہم اللہ کی تنقید ایسی نہیں جو مناظرانہ احتمالات کی نذر کردی جائے۔
حافظ عبدالعظیم منذری مختصر سنن ابی داؤد(2/4) میں اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
((أخرجه النسائي وابن ماجه، وله علة دقيقة أشار إليها البخاري وغيره، وقد جمعت طرقه في جزء))
[1] ۔ سنن ابي داؤد رقم الحديث (1047) سنن النسائي رقم الحديث (1374) سنن ابن ماجه، رقم الحديث (1374) مسند احمد(4/8) صحيح ابن حبان(3/190)
[2] ۔ جہاں تک ((اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ)) ٹکڑے کا تعلق ہے، وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں:نمبر1۔ حدیث ابی الدرداء پر امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ جیسے بالغ نظر ائمہ حدیث کی جرح کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ سنن ابن ماجہ کا حال علامہ سندھی کے کلام سے معلوم کرلیجئے۔ ایک روایت طبرانی کے حوالے سے حافظ سخاوی نے ذکر کی ہے، مگر ساتھ ہی حافظ عراقی سے نقل کردیا ہے”لایصح“ القول البدیع فی الصلوۃ علی الحبیب انشصبع، ص:119(مؤلف)
[3] ۔ جلاء الافھام لابن القیم(ص:81)