کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 428
وھو قوله ( فَتُعاد روحه في جسدہ )) [1] (کتاب الروح، ص:52)[2] یعنی اگر زندگی سے دنیوی زندگی اور اس کے لوازم مراد ہیں تو یہ یقیناً غلط ہے، ایسی زندگی میت کو حاصل نہیں ہوتی۔ اگر اس سے مراد دنیوی زندگی کے علاوہ ہے، جس میں روح کا اعادہ معتاد زندگی کی طرح نہ ہو، اس کا مقصد صرف سوال اور امتحان ہوتو یہ درست ہے، اس کا انکار غلطی ہے۔ یہ زندگی نصِ صریح سے ثابت ہے۔ پھر صفحہ(53) میں فرماتے ہیں: ”جسم کے ساتھ روح کا تعلق پانچ طرح ہوتا ہے: 1۔ ماں کے پیٹ میں بصورت جنین۔ 2۔ پیدائش کے بعد۔ 3۔ نیند کے وقت من وجہ تعلق، من وجہ علیحدگی 4۔ برزخ کا تعلق، اس میں گو علیحدگی ہوجاتی ہے، لیکن تجرد کلی نہیں ہوتا، بلکہ سلام کے جواب کے لیے اسے لوٹایا جاتا ہے، لیکن یہ دنیوی زندگی نہیں ہوتی، جو اسے قیامت سے پہلے حاصل تھی۔ 5۔ قیامت کے دن کا مل ترین تعلق، ہر پہلے چاروں قسم کے تعلق کو اس سے کوئی نسبت نہیں۔ “ حافظ ابن القیم نے اہلِ سنت کے مسلک کی اس میں پوری وضاحت فرمادی ہے۔ دنیوی زندگی کا ائمہ سنت سے سلفِ اُمت میں کوئی بھی قائل نہیں۔ معلوم نہیں شیخ عبدالحق رحمہ اللہ اور مولانا حسین احمد رحمہ اللہ نے یہ مصیبت کہاں سے خرید فرمائی؟ درحقیقت یہ بات بے تکی سی ہے، جس کسی پہلو بھی درست نہیں بیٹھتی۔ عفا اللّٰہ عنھما
[1] ۔ مسند احمد(4/287) [2] ۔ تناب الروح لابن القيم (ص:3) نیز دیکھیں:الفصل في الملل والاهواء والمحل لابن حزم(4/52)