کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 427
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یونس علیہ السلام کو احرام باندھے شتر سوار تلبیہ کہتے سنا۔ [1] دجال كو بحالت احرام حج کے لیے جاتے دیکھا۔ عمرو بن لحی کو جہنم میں دیکھا۔ [2]یہ برزخی اجسام ہیں اور کشفی رؤیت ہیں۔ اگر اسے دنیاوی حیات سے تعبیر کیا جائے جو دجال جیسے خبیث لوگوں کو بھی حاصل ہوئی تو انبیاء کی فضیلت کیا باقی رہی؟انبیاء کی حیات اہلِ سنت کے نزدیک شہدا سے بہتر اور قوی تر ہے۔ برزخ میں عبادت، تسبیح، تہلیل اوررفعتِ درجات ان کو حاصل ہے اور بعض واقعات صرف مثالی ہیں، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آیات ِ کبریٰ کے طریق پر دکھائے گئے، ان سے زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مولانا نے کتاب الروح لابن القیم سے بعض حکایات نقل فرمائی ہیں، تعجب ہے کتاب الروح کے اہم مباحث کیونکر ان کی نظر سے اوجھل رہ گئے؟ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے امام ابن حزم کا ایک حوالہ ان کی کتاب”الفصل“سےنقل فرماکر اس کے بعض حصص پر تنقید فرمائی ہے، اس میں اس حیات کا واضح تذکرہ فرمایا ہے: ((قلت ما ذکرہ أبو محمد فیه حق وباطل أما قوله مَنْ ظَنَّ أن المیت یَحیا في قبرہ فخطأ، فھذا فیه إجمال: إن أراد به الحیاة المعھودة في الدنیا التي تقوم فیھا الروح بالبدن وتدبرہ وتصرفه ویحتاج معھا إلی الطعام والشراب واللباس فھٰذا خطأ کما قال والحس والعقل یکذبه کما یکذبه النص وإن أراد به حیاة أخرٰی غیر ھذہ الحیاة بل تُعاد الروح إلیه إعادة غیر الإعادة المألوفة في الدنیا لیسأل ویمتحن في قبرہ فھذا حق ونفیه خطأ وقد دل علیه النص الصحیح الصریح
[1] ۔ صحيح مسلم، رقم الحديث(166) [2] ۔ صحيح بخاري رقم الحديث (1154) صحيح مسلم رقم الحديث(2856)