کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 426
((وقد ثبت في الحديث أن الأنبياء أحياء في قبورهم)) (3/305)
ایسی احادیث کا تذکرہ مواعظ اور فضائل کی مجالس میں تو کیا جاسکتا ہے، لیکن عقیدے کی بنیاد اس پر نہیں رکھی جاسکتی۔ اہلِحدیث اور ائمہ فن کے نزدیک اعتقاد کے لیے خبر واحد صحیح ہونی چاہیے۔ كما ذكره القيم في الصواعق المرسلة
اس حدیث کے متعلق ابن القیم فرماتے ہیں:
وحديث ذكر حياتهم بقبورهم لما يصح وظاهر النكران
فانظر إلى الإسناد تعرف حاله إن كنت ذا علم بهذا الشان
هذا ونحن نقول هم أحياء لـ ـكن عندنا كحياة ذي الأبدان
والترب تحتهم وفوق رؤوسهم وعن الشمائل ثم عن أيمان
مثل الذي قد قلتوه معاذنا بالله من إفك ومن بهتان[1]
”انبیاء کی حیات فی القبور جس حدیث میں مذکور ہے، اس کی سند صحیح نہیں۔ اہل ِ فن کو اس کی سند پر غور کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مبارک جسم کے دائیں بائیں نیچے اور اوپر مٹی موجود ہے اور جس زندگی کے تم قائل ہو، اس جھوٹ اور بہتان سے خدا کی پناہ۔ “
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نماز:
حدیث نمبر 2، 3، 4 میں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے، آ پ نے انھیں قبر میں نماز ادا کرتے دیکھا۔ [2] یہ بھی حیاتِ دنیوی نہیں، برزخی ہے۔ قبر میں بھی دیکھا، بیت المقدس میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی نماز میں شریک ہوئے، پھر آسمان پر بھی آپ سے ملاقات فرمائی اور مفید مشورے دیے۔
[1] ۔ القصيدة النونية(ص:184)
[2] ۔ مسند احمد (2/59) سنن النسائي(3/316)