کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 425
پہلی حدیث: ((الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ)) [1] (بیہقی کا رسالہ، خصائص کبریٰ) تحقیق: اس حدیث کی سند میں حسن بن قتیبہ خزاعی ہے، جس کے متعلق ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابن عدی کا قول”لا باس به“ذکر کرکے اپنی اور دوسرے ائمہ کی رائے ذکر فرمائی: ((قلت: بل هو هالك. قال الدارقطني في رواية البرقاني: متروك الحديث قال ابوحاتم:ضعيف۔ قال الازدي :واهي الحديث قال العقيلي:كثير الوهم)) (1/241) یعنی ائمہ جرح وتعدیل کی نظر میں یہ” هالك “ ” متروك الحديث “، ”ضعيف “، ”واهي الحديث “، ” كثير الوهم “ ہے۔ حافظ ابن حجر نے”لسان المیزان“(1/246) میں ذہبی کی پوری عبارت نقل فرما کر اس جرح کی تصدیق فرمادی ہے۔ حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی اسے”واهي الحديث “ اور” متروك الحديث “ فرمایا ہے۔ (تاریخ بغداد:7/405) باقی رہا شوکانی کا تحفۃ الذاکرین میں((ردّ الله عليّ روحي)) کی تشریح میں یہ لکھنا: ((لأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره وروحه لا تفارقه لما صح أن الأنبياء أحياء في قبورهم)) (ص:28) تو سابق مفصل جرح کے موجود ہوتے ”صح“ سے مصطلح صحت مراد لینا تو مشکل ہے۔ یہ”صَحَّ“بمعنی”ثَبَتَ“ ہی ہوسکتا ہے، جب تک حدیث پر وضع کا حکم یقینی نہ ہو، محدثین کےنزدیک”ثَبَتَ“ سے اس کی تعبیر ہوسکتی ہے۔ نیل الاوطار میں شوکانی نے یہی لفظ اختیار فرمایا ہے:
[1] ۔ حیاۃ الانبیاء للبیھقی (ص:28)