کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 424
اس لیے آپ حضرات کو ان سے یقیناً اختلاف ہوسکتا ہے لیکن دقت نظر وسعتِ مطالعہ، زہد وتقویٰ کے لحاظ سے ان کا مقام یقیناً بہت اونچا ہے اور فہم قرآن میں ان کا ذہن بے حد صاف ہے۔ بہت سے اکابر قدماء سے بھی ان کی رائے صائب معلوم ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں:
((بل هم أحياء في البرزخ تصل أرواحهم إلى الجنان، فهم أحياء من هذه الجهة، وإن كانوا أمواتاً من جهة خروج الروح من أجسادهم)) (فتح البيان:1/104)
”شہداء برزخ میں زندہ ہیں، ان کی روحیں جنت میں جاتی ہیں، گوروح کا تعلق جسم سے ٹوٹ چکا ہے۔ “
صفحہ(205) میں فرماتے ہیں:
”روح جو ہر قائم بالذات بدن سے حسی طور پر مغایر ہے، جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کے نزدیک موت کے بعد بھی اس کا ادراک باقی رہتا ہے، کتاب وسنت کا یہی منشا ہے۔ “
درسیات کے مشہور عالم ملاجیون(صاحب نور الانوار) نے”التفسیرات الاحمدیة“(ص:39، 41 طبع کریمی بمبئی) میں حیاتِ شہداء پر طویل بحث کے سلسلے میں اسے برزخی ہی قراردیاہے۔
پیش کردہ احادیث پر ایک نظر:
حیاۃ الانبیاء بیہقی کے حوالے سے اس مسئلے میں دس احادیث مرقوم ہیں۔ مقامِ نزاع کے تعین کے بعد ان میں سے کوئی استدلال کے قابل نہیں، پھر حیات دنیوی کا ذکر کسی میں بھی نہیں۔ احادیث کے نام کی اہمیت اور اسلام میں سنت کے مقام کی رفعت کے پیش نظر اس کے متعلق اختصار سے کچھ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوا۔ نامہ نگار کا تعلق دیوبند جیسی علمی درسگاہ سے ہے، اس لیے بعض اہم احادیث کو جرح وتوثیق کے لحاظ سے یہاں جانچا جاتا ہے۔