کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 423
”اور ایسی حکایات جن میں صدیوں کے بعد شہداء کے اجسام سے خون بہنے کا ذکر ہے، یہ سب خرافات ہیں، ان کے راوی غیر مستند ہیں او ران حکایات کی تصدیق کرنے والے نحیف العقل ہیں۔ “
تعجب ہے مولانا بدر عالم صاحب ایسے ثقات نے بھی ان روایات کا تذکرہ مجمل تنقید کے ساتھ فرمایا ہے، حالانکہ مولوی احمد رضا خاں صاحب اور ان کی پارٹی کے مزخرفات کے جواب میں اس قسم کی روایات پر محدثانہ تنقید ہونی چاہیے، تاکہ شکوک وغیرہ عامۃ المسلمین کے ذہن کو ماؤف نہ کردیں۔
حافظ ابن جریر کی تصریح:
حافظ ابن جریر سورت بقرہ کی تفسیر میں ا س سوال کا جواب دیتے ہیں کہ برزخی زندگی تو سب کے لیے ہے، پھر شہداء کی کی خصوصیت کیا ہے؟
((أنهم مرزوقون من مآكل الجنة ومطاعمها في بَرْزَخِهم قَبل بعثهم, ومنعَّمون بالذي ينعم به داخلوها بعد البعث من سائر البشر، من لذيذ مطاعمها الذي لم يُطعمها الله أحدًا في برزخه قبل بعثه.)) [1] (ابن جریر:2/24)
”شہداء کو جنت کے لذیز کھانے برزخ ہی میں ملیں گے، دوسرے لوگوں کو یہ انعامات برزخ کے بعد جنت میں ملیں گے۔ “
یعنی شہداء کی زندگی برزخی ہے، دنیوی نہیں، ان کا برزخ جنت کی نظیر ہے۔ جنت کے لذائذ ان کو قبر ہی میں مرحمت فرمائے جائیں گے۔ یہ مزیت ہے جسے حیات سے تعبیر فرمایا اورانھیں میت کہنے سے روکا گیا ہے۔
مولانا نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ والی بھوپال مکتبِ فکر کے لحاظ سے اہلحدیث ہیں،
[1] ۔ تفسير ابن جرير(3/216)