کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 422
بدن سے مغایر ہیں، لیکن برزخی جسم سے تعلق میں کوئی مانع نہیں۔ یہ دنیوی کثیف بدن سے مختلف ہے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں:
((وأن أرواح الشهداء يثبت لها هذا التعلق على وجه يمتازون به عمن عداهم إما في أصل التعلق أو في نفس الحياة بناءا على أنها من المشكك لا المتواطىء))
”شہداء کی ارواح کا یہ تعلق باقی اموات سے امتیازی ہے، یہ امتیاز روح کے تعلق میں ہو یا زندگی ہی کلی مشکک ہوا۔ “
دنیوی جسم کے متعلق فرماتے ہیں:
”خدا تعالیٰ کی قدرت سے یہ چنداں مستبعد نہیں، لیکن اس سے کچھ فائدہ نہیں، بلکہ دنیوی جسم کے ساتھ زندگی سے کمزور اعتقاد لوگوں کو شک وشبہات میں مبتلا کرنے اور ایک سفاہت پر یقین دلانے کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ “
علامہ آلوسی رحمہ اللہ برزخی زندگی کے قائل ہیں اور اسی زندگی میں شہداء اور عام اموات کو شریک سمجھتے ہیں، لیکن اس زندگی میں تواطؤ کی بجائے تشکیک سمجھتے ہیں، تاکہ شہداء اورباقی اموات کا امتیاز رہے۔ ان کے اس مفصل ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ائمہ سنت سے ان کے زمانے 1270ھ تک دنیوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں۔ دنیوی جسم کے ساتھ تعلق کے جو لوگ قائل ہیں، وہ بھی تعلق کی نوعیت برزخی سمجھتے ہیں۔ معلوم نہیں اکابر دیوبند میں یہ غلط عقیدہ کہاں سے آگیا ہے؟علامہ آلوسی آخر میں فرماتے ہیں:
((وما يُحْكى مِن مُشاهَدَةِ بَعْضِ الشُّهَداءِ الَّذِينَ قُتِلُوا مُنْذُ مِئاتِ سِنِينَ، وأنَّهم إلى اليَوْمِ تَشْخَبُ جُرُوحُهم دَمًا إذا رُفِعَتِ العُصابَةِ عَنْها؛ فَلِذَلِكَ مِمّا رَواهُ هَيّانُ بْنُ بَيّانٍ، وما هو إلّا حَدِيثُ خُرافَةٍ، وكَلامٌ يَشْهَدُ عَلى مُصَدِّقِيهِ تَقْدِيمَ السَّخافَةِ اه)) (ص:22، پ2)