کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 421
جیسا کہ گزرا۔ یہ عقیدہ ابن قیم کی تحقیق کے مطابق فرقہ معطلہ کا تھا۔ عقائد کے بارے میں یہ لوگ اپنے وقت کے بدعتی تھے۔ اہل ِ سنت کا عقیدہ شہدا اور انبیاء کی حیاتِ دنیوی کا نہیں، حیات برزخی ہے، جس کی صراحت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے فرمائی ہے۔
علامہ آلوسی حنفی کی تصریحات
شیخ شہاب الدین ابوالفضل السید محمود آلوسی بغدادی(1270ھ) نے، جو اپنے وقت کے بہت بڑے محقق، عراق کے مفتی اور مسلکاً حنفی ہیں، روح المعانی(پارہ 2، سورۂ بقرہ) میں اس موضوع پر کس قدر تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے حیاتِ شہداء کے متعلق پانچ مسالک کا ذکر فرمایا ہے۔ اول جسمانی، دوسرا روحانی، باقی مسالک باطل ہیں۔ پہلے مسلک کے متعلق فرماتے ہیں:یہ راجح ہے۔ ابن عباس، قتادہ، مجاہد، حسن، عمرو بن عبید، واصل بن عطاء، جبائی، رمانی اور مفسرین کی ایک جماعت نے یہی پسند کیا ہے۔
جسم کے متعلق اہل ِ علم میں اختلاف ہے۔ بعض اسی جسم کے قائل ہیں، جس پر شہادت وارد ہوئی۔ بعض کہتے ہیں اس حیات کا تعلق پرندوں سے ہے، جن کا رنگ سبز ہوگا، ا ن کے آشیانے قندیلیں ہونگی۔ تیسرا مسلک یہ ہے کہ دنیوی جسم سے ملتا جلتا جسم ان کو عطا ہوگا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
((وعندي : أن الحياة في البرزخ ثابتة لكل من يموت شهيد وغيره، وأن الأرواح - وإن كانت جواهر قائمة بأنفسها - مغايرة لما يحس به من البدن، لكن لا مانع من تعلقها ببدن برزخي مغاير لهذا البدن الكثيف))[1] (ص:21، پ2)
یعنی حیاتِ برزخی سب کے لیے ثابت ہے۔ شہید اور دوسرے سب اس میں شامل ہیں۔ ارواح قائم بالذات ہیں(مذہب اہلِ سنت) اس محسوس دنیوی
[1] ۔ تفسير روح المعاني(2/21)