کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 420
اما تمعتات جسدانیہ بے تکلفات دارند اصلاً روئے غم والم نے بیند، بس در حقیقت حیات ایشاں اتم از حیات دنیوی است“
(تفسیر عزیزی، ص:471)
یعنی شہداء کی روحیں اس دنیا کے فوائد اور تکلیفات سے تو بہت دور جا چکی ہیں، لیکن عالم برزخ میں ان کو دوسرے اجسام(سبز پرند وغیرہ) عطا ہوتے ہیں، ان سے وہ بے تکلف مستفید ہوتے ہیں، انھیں فکر اور غم نہیں ہوتا، ان کی یہ زندگی دنیا کی زندگی سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
”این نوع تعلق کہ ا رواح شہدا ء راباجانوراں پرندہ بہم میرسدہم بیروں از عالم عناصر است“ (تفسیر عزیزی، ص:471)
”شہدا کا جن پرندوں سے تعلق ہے، یہ بھی اس عنصری دنیا سے بالکل الگ ہیں۔ “
”پس حیاتِ شہدا درعالمِ برزخ حیات جزائی ست بہ حیائی ابتدائی۔ “ (تفسیر عزیزی، ص:472)
”برزخ میں شہداء کی زندگی جزائے اعمال کے لیے ہے، ابتدائی اور اعمال کی زندگی نہیں۔ “
شاہ صاحب کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہداء کی زندگی اس عنصری دنیاکی زندگی نہیں، بلکہ وہ عالم ِ برزخ اور دارالجزاء کی زندگی ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ان اکابر کو دنیوی زندگی کہاں سے سمجھ میں آئی اور دنیوی زندگی سے ان کو کیوں محبت ہے؟دنیوی زندگی کو ترجیح کفار کا خیال تھا:
((إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا)) (الانعام:29) ”جو کچھ ہے دنیا ہی دنیا ہے“
انبیاء اور شہداء کے تو تصور میں بھی ایسا نہیں آسکتا۔ ابن القیم کا تجزیہ کس قدر درست ہے:
والله لا الرحمن أثبتم ولا أرواحكم يا مدعى العرفان
عطلتم الأبدان من أرواحها والعـرش عطلتم من الرحمن