کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 42
1۔ ”اہلحدیث اور اہل الرائے دونوں مکتب ِ فکر ہیں ا ور دونوں اہل علم میں رائج ہیں۔ 2۔ شاہ صاحب کے خیال میں اہل حدیث اور اہل رائے اس آخری دور میں اپنی جگہ سے ہٹ چکے ہیں۔ 3۔ متاخرین اہل رائے میں استدلال اور استنباط کے بجائے تقلید اور جمود آگیا ہے۔ یہ شاہ صاحب کی نظر میں نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ 4۔ اہل حدیث نے بھی حدیث کی طرف بے توجہی کی ہے، وہ تقریباً اسے ایک رسم کے طور پر کررہے ہیں۔ استنباط اور اجتہاد کے نقطۂ نظر سے نہیں کرتے اور نہ تفقہ کی کوشش کرتے ہیں۔ “(ص:145) ”شاہ صاحب چاہتے ہیں کہ دونوں گروہ حقیقت پسندی سے کام لیں اور اہل الرائے اکابر کے بجائے کتاب وسنت کو اساس قراردیں اور اہلحدیث ظاہریت سے بچ کر تفقہ سے کام لیں۔ “(تفھیمات:1/209)۔ (ص:146) مصنف ایک مقام پر لکھتے ہیں: ”اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرجمود غلط ہے تو پھر صحیح کیا ہے؟شاہ صاحب موجودہ حالات میں کیا تبدیلی چاہتے ہیں؟قیاس اور رائے پرستی بھی انھیں پسند نہیں اور ظواہر پرستی بھی ان کی نگاہ میں معیوب ہے تو پھر وہ کیا ہے جسے پسند کیا جائے؟“ اس معاملے میں مصنف نے”التفھیمات الالٰھیۃ“(1؍ 211) سے شاہ صاحب کی عبارت نقل کی ہے، جس میں مذکورہ سوالات کا جواب ہے، اس کے بعد اپنا تاثر یوں ظاہر کرتے ہیں: ”شاہ صاحب کا ارشاد کسی حاشیہ آرائی کا محتاج نہیں۔ وہ تقلید کے صرف اس حد تک قائل ہیں کہ اہل علم کتاب وسنت سے روایت کرتے ہیں، علمی