کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 419
(عِنْدَاللّٰہِ))ہے۔ اور انبیاء کی برزخی زندگی جسمانی دنیوی ہے۔ وبینھما بون۔ اس لیے انبیاء کی زندگی کے لیے ان آیات سے استدلال نہیں ہوسکتا۔ اب آپ حضرات اگر اس گزارش سے متفق ہوں تو شہدا ء کی زندگی کے متعلق تو کوئی اختلاف نہیں رہے گا اور حیات دنیوی پر ان سے استدلال بھی درست نہیں ہوگا۔ جب زندگیاں ہی دونوں الگ الگ ہیں تو نہ ایک کا قیاس دوسری پر ہوسکے گا، نہ ایک کے دلائل دوسری کے لیے دلیل بن سکیں گے۔ اما م شوکانی رحمہ اللہ نے معتاد رزق سے اگر دنیوی معتاد سمجھا ہے تو یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ شہداء کی زندگی جب عنداللہ ہے تو دنیوی رزق وہاں کیسے جاسکتا ہے؟اگر معتاد برزخی مراد ہے تو حیاتِ دنیوی کے لیے یہ رزق دلیل نہیں بن سکے گا۔ رزق سے استدلال بے معنی ہے: ایسے رزق سے زندگی کا استدلال بالکل بے معنی اور غلط ہے۔ رزق انبیاء اور شہداء کے علاوہ برزخ میں باقی ایمان دار مرنے والوں کو بھی ملتا ہے۔ ارشاد ربانی پر غور فرمائیں: ((وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْۤا اَوْ مَاتُوْا لَیَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ)) (الحج:58) آیت میں موت اور قتل دونوں پر رزق کا وعدہ فرمایا گیاہے۔ پس جب رزق طبعی موت سے مرنے والوں کو بھی ملتا ہے تو رزق سے زندگی پر استدلال صحیح نہ رہا۔ آپ حضرات کے نظریات سے لازم آتا ہے کہ کوئی بھی مرتا نہیں، یوں ہی موت کا لفظ لغت میں رکھ لیا گیا ہے!! شاہ عبدالعزیز کی تحقیق: شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں: ”آرے ارواح شہیداں از تمتعات ایں جہاں وتکلیفات دنیا دور افتادہ اند،