کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 418
((وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ)) (البقرۃ:154)
((وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ)) (آل عمران:169)
دونوں آیات شہداء کی زندگی میں نص ہیں۔ اہلِ سنت کے مکاتبِ فکر سے کسی نے اس زندگی کا انکار نہیں کیا۔ حضرت مولانا حسین احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہدا کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی او راز قبیل حیاتِ دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر۔ “
(مکاتیب:1/130، بحوالہ”دارالعلوم“نومبر 57ء)
مولانا شہداء کی زندگی کو روحانی سمجھتے ہیں اور انبیاء کی جسمانی دنیوی کو اس سے قوی تر۔ ظاہر ہے کہ حسبِ ارشاد مولانا، یہ آیت روحانی برزخی اور کمزور زندگی کے لیے دلیل بن سکتی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ دنیوی جسمانی طاقتور زندگی اس سے بالکل مختلف ہے، اس کے لیے یہ آیت دلیل نہیں بن سکتی، نہ ہی اس پر اس کا قیاس درست ہوسکتا ہے۔
آپ حضرات بھی جانتے ہیں کہ شہداء کی زندگی کے باوجود ان کی بیویاں نکاح کرسکتی ہیں، ان کا ترکہ تقسیم ہوتا ہے، اور انبیاء کی زندگی چونکہ قوی تر ہے، اس لیے نہ ان کی ازواج نکاح کرسکتی ہیں نہ ان کا ترکہ تقسیم ہوسکتا ہے۔ اندریں صورتِ حال یہ آیت اس کے لیے کیا دلیل ہوسکے گی؟
شہداء کی زندگی کے متعلق سور ت بقرہ میں: ((لَّا تَشْعُرُونَ))فرمایا ہے۔ یعنی یہ زندگی تمہارے شعور سے بالا ہے۔ آل عمران میں ((أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ))فرمایا۔ محط فائدہ قید زائد ہے۔
((عِنْدَاللّٰہِ))كا تعلق ((أَحْيَاءٌ)) سے ہویا ((يُرْزَقُونَ)) سے، دونوں((عِنْدَاللّٰہِ)) ہوں گی۔ ”فی الدنیا“نہیں ہونگی۔ اس لیے شہداء کی زندگی تو بنصِ قرآن