کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 417
کریں گے: یہ ”آن“ کتنے گھنٹوں کی تھی؟ يا للعقول الطائشة وما للمضحكات!
وقد صدق ابن القيم!
والله لا قدر الرسول عرفتم كلا ولا للنفس والإنسان
حیات شہداء کی تحقیق اور اس کی نوعیت:
کفار موت کو عدم محض یا کلی فقدان سمجھتے تھے۔ قرآن نے موت کے اس اصطلاحی مفہوم کا شہدا کے حق میں انکار کیا۔ یہ درست ہے، لیکن قتل کے عنوان سے جسم اور روح کےانفصال کا اعتراف فرمایا۔ یا ان کا خیال تھا کہ موت کے بعد داعی فنا میں ان اعمال پر کوئی جزا مرتب نہ ہو گی۔ قرآن نے اس معنی سے نفی فرمادی اور اس دنیا سے رخصت کے بعد رزق اور نئی زندگی کا اعلان فرمایا:جو دنیوی زندگی سے مختلف ہوگی، اتنی مختلف کہ دنیا والے اس کا شعور بھی نہیں رکھ سکتے۔ یہ بالکل صحیح ہے لیکن موت بمعنی انفصال روح سے انکار قطعاً غلط ہے اور ہدایت حسی سے جنگ۔ ((وَلَا يَرْغَبُ عَن نَفْسَهُ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ))
پھر یہ زندگی اگر دنیوی زندگی ہی تھی تو((لَّا تَشْعُرُونَ)) کیوں فرمایا گیا؟ اور انسان اس قدر بے شعور ہیں کہ زندگی کو بھی نہیں سمجھتے۔ جس کی زلف پریشان کے بناؤ سنگار میں پوری زندگی صرف ہو رہی ہے، وہی سوفسطائیت ہوئی، جسے عقل گوارا کرتی ہے نہ نقل اس کی تائید کرتی ہے۔
دلائل:
سابقہ عمومی گفتگو کے بعد اس موضوع پر مزید گفتگو کی چنداں ضرورت معلوم نہیں ہوتی اور محل نزاع کی تعیین کے بعد دونوں بزرگوں نے جو دلائل ارقام فرمائے ہیں۔ وہ خود بخود ہی ختم ہو جاتے ہیں، کیونکہ آیات اور احادیث اور ائمہ سلف کے اقوال میں دنیوی زندگی کا ذکر بالکل نہیں اور حضرات علماء کی آرا قابل احترام ہونے کے باوجود شرعاً حجت نہیں، اس کے باوجود مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کمزور تمسکات پر بھی مختصر گفتگو ہو جائے۔ قرآن عزیز نے شہدا کی زندگی کا ذکر سورت بقرہ اور سورت آل عمران میں فرمایا ہے: