کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 416
غزوہ احد میں منافق بھی موت ہی سے گھبراتے تھے۔ قرآن عزیز نے فرمایا: ((أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ)) (النساء:78) ”تم گچ گنبدوں میں بھی قیام کرو، موت ضرور آئے گی۔ “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مباہلہ: انبیاء علیہم السلام اور صلحاء امت، جن کا مستقبل انتہائی تابناک اور روشن ہے، وہ اس سے کیوں گھبرائیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، فداہ روحی، نے مخالفین کو دعوت مباہلہ دی۔ ہم اگر ان سے موت کی نفی کریں تو مدعی سست اور گواہ چُست کی مثال صادق آئے گی۔ اہل توحید کا مقام ہے کہ اس میں انبیاء ہی کی طرح وہ راضی بہ رضا ہیں، نہ زندگی سے مسرت نہ موت کا غم، جو حکم آئے اس کے لیے ہر وقت تیار۔ آخر یہ کیا مصیبت ہے، مولانا بریلوی ایک آن کے لیے موت تسلیم کرتے ہیں، اگر موت نبوت کے منافی ہے تو ایک آن کے لیے بھی کیوں ہو، اگر یہ منافی نہیں تو ان کے لیے کیوں بدلا جائے؟ خان صاحب بریلوی کی طویل ایک ”آن“: اور خان صاحب بریلوی کی ”آن“تو اتنی طویل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سوموار کو ہوا، دفن بدھ کو فرمایا گیا، گھر والوں نے تجہیزو تکفین کے انتظامات کیے، دوسرے ساتھیوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں آئندہ خلافت کے متعلق دانشمندانہ فیصلہ فرمایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ملائکہ نے پڑھی، ایک لاکھ سے زائد صحابہ نے پڑھی۔ خان صاحب کی ربڑکی ”آن“ختم نہ ہو سکی یا پھر ملائکہ اور صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی کا احساس نہ ہوا۔ تیسرے دن اشکبار آنکھوں کے ساتھ جیتے پیغمبر کو دفن کردیا، اس زندگی کو نہ بیویاں سمجھ سکیں، نہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جان سکیں۔ مشہد کے شیعہ حضرات آپ سے دریافت کریں گے کہ زندہ درگور کرنے والے آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھی تھے؟ علمائے ہئیت دریافت