کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 415
کیونکہ حضرت انتقال فرما چکے۔ اسے موت کہیے، وصال کہیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت گزین فرمائیے، کوئی عنوان اختیار فرمائیے، حقیقت یہ ہے کہ جسم اور روح کا دنیوی پیوند ٹوٹ چکا ہے۔ یہی موت ہے جو برزخی احوال اور قبر کی زندگی کے منافی نہیں، بلکہ اس منزل تک پہنچنے کا ایک صحیح ذریعہ ہے۔ آپ فرمائیں کہ عالم برزخ میں موت اور زندگی میں ترادف ہے تو مجھے اس اعتراض سے انکار نہیں، مگر موت کا انکار اہل علم سے ایک شرمناک سانحہ ہے۔ عنوان سے حقیقت نہیں بدلتی: عنوان اور تعبیرات کی تبدیلی سے حقائق نہیں بدل سکتے۔ مولانا حسین احمد جلالت قدر اور مولانا نانوتوی کی غزارت علمی اور شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کی سادگی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی، جس کا اقرار قرآن حکیم نے محکم آیات میں فرمایا ہے۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر اجماع فرمایا ہو۔ اور دنیا کی تاریخ نے اس کی تصدیق فرمائی ہو، غرض موت سے گھبراہٹ کا کوئی سوال ہی نہیں یا پھر صراحت فرمائیے بری چیز ہے، اس میں حقارت پائی جاتی ہے اور اسے ایک لمحہ کے لیے بھی مت تسلیم فرمائیے، واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کفر ہے۔ کراہیۃ الموت: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے موت سے کراہت کفر کی علامت ہے۔ یہودی اور مشرک موت کو ناپسند کرتے تھے: ((وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ)) (البقرۃ:96) یہودی اور مشرک دنیوی زندگی کے زیادہ خواہشمند تھے، وہ چاہتے تھے کہ اس دنیا میں ہزار سال زندہ رہیں، لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں، عذاب بہر حال ہو کر رہے گا۔