کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 413
انبیاء کی حیات دنیوی اہل بدعت کا مذہب ہے: ابن القیم کے بیان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حیات دنیوی اہل بدعت اور معطلہ کا مذہب ہے۔ قصیدہ نونیہ (ص:140) ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتے ہیں: ”ہماری یہ شہادت ہے کہ تم زمین پر قرآن کو خدا کا کلام نہیں سمجھتے، نہ آسمان پرخدا کو تم قابل اطاعت سمجھتے ہو اور نہ ہی تمھارے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں مد فون ہیں۔ “ اگر مولوی احمد رضا اس قسم کی بہکی باتیں کہیں تو تعجب نہیں، اہل توحید اور مدرسین حدیث سے اس قسم کے خیالات کا اظہار تعجب انگیز ہے۔ !! کیا موت انبیاء کے لیے موجب توہین ہے۔ ؟ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ انبیاء علیہم السلام اور اہل اللہ کے حق میں ہم موت سے گھبراتے کیوں ہیں؟ موت کوئی بری چیز نہیں۔ نطفہ سے شروع ہو کر قبض روح، طفولیت، صبا، مرامقت، شباب، کہولت، شیخو خت، زندگی کے مختلف مراتب ہیں۔ ان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ عوارض ہیں، مگر انبیاء صلحاء، اہل اللہ! سب کو اس راہ سے گزرنا ہے، اس لیے کسی کے لیے ان میں سے کوئی منزل نہ تو خوشگوار ہے، نہ موجب توہین ہے۔ زندگی بہر حال ان ہی منازل سے تعبیر ہے۔ قرآن عزیز نے فرمایا: ((الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ)) (الملک:2) یعنی موت و حیات اسی دارالابتلاء کی منازل ہیں، جن سے ہر انسان کو گزرنا ہے۔ دنیوی زندگی سے آخرت تک پہنچنے کے لیے موت ایک پل ہے، جسے سب کو عبور کرنا ہے، اس میں تحقیر ہے نہ اہانت۔ اگر موت کوئی بری چیز ہے تو انبیاء اور صلحاء پر اسے ایک آن کے لیے بھی نہیں آنا چاہیے اور اگر واقعی آخرت کے سفر کی یہ بھی ایک منزل ہے تو اس کے لیے پیچ و تاب کھانے کی ضرورت نہیں۔ اسے اسی قانون سے آنا چاہیے جو ساری کائنات