کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 412
اور فتوی نہ دیں، صحابہ کو اختلاف اور ان پر بہتان سے نہ بچائیں، اگر زندہ ہوتے تو سوال کا جواب دیتے، نیز اگر حرکت کرنے سے عاجز ہیں تو پھر وہ زندگی نہ رہی، جسے آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ “ دنیوی زندگی ماننے کی صورت میں اس قسم کے سینکڑوں عقلی سوال آپ پر عائد ہوں گے اور اسلامی تاریخ ایک معماہو کر رہ جائے گی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی صلح مختار بن عبید ثقفی کی عیاریاں حرہ کا فتنہ، مسیلمہ اور اسود کی نبوت، حجاج بن یوسف کے مظالم، عباسی انقلاب، سقوط بغداد اور ترکوں کے مظالم، قادیانی نبوت جیسے حوادث لیکن کہیں بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مداخلت فرمائیں۔ مسجد کے ایک خادم کی موت پر حضرت بے قرار ہوں اور قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائیں۔ [1]اور حضرت عمر، حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر تعزیت کے لیے بھی تشریف نہ لائیں! عقل مند اور ذہین لوگ آپ سے دریافت کریں گے کہ آخر یہ کیوں ہے؟ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی تلخی بالکل بر محل ہے: يا قومنا استحيوا من العقلاء والمبعوث بالقرآن والرحمٰن والله لا قدر الرسول عرفتم كلا ولا للنفس والإنسان من كان هذا القدر مبلغ علمه فليستتر بالصمت والكتمان ولقد أبان الله أن رسوله ميت كما قد جاء في القرآن (قصيده نونیة، ص: 142) ”اے قوم !تمھیں خدائے ذوالجلال، قرآن اور عقلمندوں سے شرم محسوس ہونی چاہیے۔ نہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر کو پہچانا نہ انسانیت اور روح کی اقدار کو تم نے سمجھا۔ جس کا اسی قدر مبلغ علم ہو، اسے خاموش ہو کر چپ رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر موت وارد ہو چکی ہے۔ “
[1] ۔ دیکھیں : صحيح البخاري(1/56)